مولانا ابرار احمد اجراوی قاسم

نقشِ حیات: ادبی نگارخانے میں از مولانا ابرار احمد اجراوی قاسمی

in ALL, BLOG, تاریخ, سوانح, شخصیات on December 21, 2024

نقشِ حیات: ادبی نگارخانے میں از مولانا ابرار احمد اجراوی قاسمی

دوسروں کی سوانح لکھنایا دوسروں کے احوال و کوائف قلم بند کرنا بہت آسان کام ہے۔اس کے برعکس اپنی خود نوشت مرتب کرنا اور اپنی کتابِ زندگی کو بے کم و کاست تحریر کے قالب میں ڈھالناپل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔ سوانح نگاری خارجی زندگی کی تصویر کشی ہے، تو خودنوشت نگاری باطن کے اسرار رو رموز کو کاغذ کے سینے پر کندہ کرنے کی جان کاہی۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ خود ستائی کی بے لگام خواہش سے مجبور ہوکر اپنی خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے اور اپنے عیوب پریا تو ملمع سازی کرتا ہے یا دانستہ اس سے چشم پوشی کرلیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ داستانِ خود بقلم خود سے عبارت، خود نوشت نگاری تمام ادبی اصناف میں مشکل بھی ہے اور آسان بھی۔ مشکل اس لیے کہ اس میں حقیقت بیانی اور صدق مقالی سے کام لینے پر اپنی زندگی کی پرتوں کو اس طرح کھولنا پڑتا ہے کہ بسا اوقات دھرم سنکٹ والا معاملہ پیش آجاتا ہے۔اور یہیں نفسانی خواہشات سے مغلوب ہوکر مصنف کا قلم شکست کھاجاتا ہے۔ اور آسان اس لیے کہ اگرچہ اپنا اعمال نامہ زیادہ’ طویل‘ ہو ، اس پر ادبی لفاظی، عبارت آرائی اور خوش نما ترکیبوں کی قلعی کرتے جائیے اور اپنی خامیوں کو بھی خوبی کے لباس میں پیش کرتے جائیے۔ خود نوشت نگاری کوئی تحقیق یا تنقید کا میدان نہیں کہ اس میں مراجع اور مآخذ کی طرف جھانکنے کی نوبت آئے ۔ بس حقیقت کی بینائی کھولے رکھیے اور اپنے ظاہر و باطن کے احوال کو قلم و قرطاس کے حوالے کرتے جائیے؛تا ہم خود نوشت کے لیے اصلیت و واقعیت اور انکشافِ ذات خشتِ بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خود نوشت کا محور چوں کہ مصنف کی شخصیت ہوتی ہے؛ اس لیے اس میں اپنی ذات سے محبت کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے اور قاری کے محاسبے کا خوف بھی دامن گیر رہتا ہے۔سوانح عمری اور خود نوشت کے تقاضوں کی تشریح کرتے ہوئے ڈاکٹر سید عبد اللہ لکھتے ہیں:
”ایک لحاظ سے آپ بیتی یا خود نوشت سوانح عمری کی صنف دوسروں کی لکھی ہوئی سوانح عمریوں کے مقابلے میں خاصی نارسا اور ناقص چیز ہوتی ہے۔ اس کے راستے میں دوبڑی رکاوٹیں ہوتی ہیں۔ دوسرں کا خوف اور اپنے آپ سے محبت۔ ایک اچھا سوانح نگار، اپنے فن کی لاج رکھنے کے لیے بہت سی ایسی باتیں بھی بیان کردیتا ہے جو خود نوشت نویس کے لیے ممکن نہیں ہوتیں۔ سوانح نگار اپنے ہیرو کے کرداد کا جج بن سکتا ہے۔ اس کی کمزوریوں کا شمار کرسکتا ہے؛ لیکن آپ بیتی میں اپنی محبت اور دوسروں کاخوف ہر وقت دامن گیر رہتا ہے۔ وہ نہ اپنے گناہوں کی صحیح فہرست پیش کرسکتا ہے، نہ اپنا صحیح جج بن سکتا ہے۔( میر امّن سے عبد الحق تک،ڈاکٹر سید عبد اللہ، ص:۴۰۰ چمن بک ڈپو، دہلی، ۱۹۶۵/)
خود نوشت نگاری کے بنیادی لوازم کیا ہیں، ڈاکٹر عمر رضا لکھتے ہیں
”خود نوشت سوانح عمری کی تعمیر اگرچہ خود مصنف اپنی یاد داشت کی بنیاد پر کرتا ہے؛ لیکن محض یاد داشت کی بنیاد پر خود نوشت سوانح مرتب کرنا درست نہیں؛ بلکہ مصنف کو اپنے حالات و واقعات کی صحت مندی پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے؛ تاکہ اپنے متعلق کوئی بھی غلط بات یا غلط حقائق قارئین کی نذر نہ کردے۔“(اردو میں سوانحی داب: فن اور روایت، ص:۲۲، کتابی دنیا نئی دہلی، ۲۰۱۱/)
ڈاکٹر سید طفیل احمد خود نوشت سوانح کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں
”آپ بیتی کسی انسان کی زندگی کے تجربات، مشاہدات، محسوسات و نظریات کی مربوط داستان ہوتی ہے، جو اس نے سچائی کے ساتھ بے کم و کاست قلم بند کردی ہو، جس کو پڑھ کر اس کی زندگی کے نشیب و فراز معلوم ہوں۔ اس کے نہاں خانوں کے پردے اٹھ جائیں اور ہم اس کی خارجی زندگی کی روشنی میں پرکھ سکیں۔“(اردو میں سوانحی ادب، فن اور روایت، ص:۱۲۱)
خود نوشت سوانح کے مذکورہ لوازمات اور فنی تعریف کے علاوہ اگر ماہرینِ فن کے ذریعے مرتب کردہ اس کے عناصرِ ترکیبی پر غور کیجیے تو یہ صنف تمام نثری اصناف میں مشکل ترین نظر آتی ہے اور اس دشت کی سیاحی کے لیے قدم قدم پر بڑی جان کاہی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ مشہور مزاح نگار مشتاق یوسفیؔ اسی مشکل کو بیان کرتے ہوئے، اپنی مزاحیہ خود نوشت ”زرگزشت“ کے مقدمے میں لکھتے ہیں
”آپ بیتی میں ایک مصیبت یہ ہے کہ اپنی بڑائی آپ کرے تو خود ستائی کہلائے اور از راہِ کسرنفسی یا جھوٹ موٹ اپنی برائی خود کرنے بیٹھ جائے تو یہ احتمال کہ لوگ جھٹ یقین کرلیں گے۔“
شورش کاشمیری بھی خود نوشت نگاری کو نقصان کا سودا ہی بتاتے ہیں، اور اس کو ناقابلِ اعتبار قرار دیتے ہیں، لکھتے ہیں
”لیکن چوں کہ انسان یہ سمجھ کر اپنے حالات حوالہٴ قلم کرتا ہے کہ ایک دن یہ مجموعہ لوگوں کے ہاتھ میں جائے گا؛ اس لیے اس تصویر میں جہاں عیب ہیں، وہ ان پر سیاہی پھیرتا جاتا ہے اور اس بناء پر یہ مرقع بھی اس کی سچی شبیہ نہیں ہوتی۔“(قلم کے چراغ، مرتب:پروفیسر محمد اقبال، ص:۴۶۲، دارالکتاب لاہور، ۲۰۰۹/)
لیکن مشتاق یوسفیؔ کے احتمال وایقان یا شورش کاشمیری کے غیر معتبریت کا مسئلہ ان لوگوں کے ساتھ گمبھیر روپ اختیار کرلیتا ہے جو واقعی اپنی زندگی میں بڑے حقیقت پسند واقع ہوئے ہیں۔ ورنہ جن لوگوں کی کتابِ زندگی میں حقیقت وصداقت اور اعتبار و استناد کا کوئی باب اور فصل ہی نہ ہو ان کے لیے یہ یقین یا شک کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ان کے لیے صحیح اور غلط سچ اور جھوٹ دونوں یکساں ہیں۔ اکثرخود نوشت نگار اپنی زندگی کے دروں میں جھانکتے ہوئے سچائی اور صداقت پر مبنی ان تمام اصول کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور بس بزبانِ حال ان کا یہی دعوی ہوتا ہے کہ میں بھی غالب کی طرح عندلیب گلشن ناآفریدہ ہوں۔
خود نوشت نگاری کے مرض میں ہمارے عہد کے قلم کار اس میں بری طرح مبتلا ہیں، یا شہرت طلبی کے بے لگام شوق اور سیم و زر کی بہتات نے انھیں اس مرض میں مبتلا کردیا ہے کہ کسی لائبریری کے کیٹلاگ میں جاکر خود نوشت والا حصہ کھنگالیے تو سب سے پھیلا ہوا اور وسیع و عریض یہی رقبہٴ ادب ہوگا۔ہماری نومولود اردو زبان میں خاص طور سے خود نوشت نگاری کا سیلاب آیا ہوا ہے۔افسانہ نگاری اور عزل گوئی کے بعد اس بیچاری زبان کے اسی نثری حصے کوسب سے زیادہ مشقِ ستم بنایا جارہا ہے۔ اب تو اردو کے نام سے قائم اکیڈمیاں خود نوشت نگاری کے لیے ادیبوں اور ریٹائرڈ پروفیسرز کو خطیر رقم پر مبنی فیلوشپ بھی دینی لگی ہیں؛ تا کہ اس سیلاب بلا خیز پر کوئی بھی بند نہ باندھ سکے۔اسی قسم کی بے سر و پا باتوں پر مبنی، اردو کی خود نوشت سوانح عمریوں کا ماتم کرتے ہوئے شورش کاشمیری نے لکھا تھا:
”بین الاقوامی ادب سے قطعِ نظر اردو میں جس قدر خود نوشت سوانح عمریاں ہیں، ان میں شاعری زیادہ اور اصلیت کم ہے۔“(قلم کے چراغ، ص:۴۶۲)
جملہٴ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ ناچیز راقم الحروف کو خود نوشت نگاری کیا ، کسی بھی نثری یا شعری صنف سے کوئی بیر نہیں ہے، میرا یقین ہے کہ تاریخی کتابوں کی طرح یہ بھی معلومات کا ایک اہم ذریعہ ہے؛ لیکن جب خود نوشت کی تعیینِ قدر کے معاملے میں بھی ہمارے اردو کے سماجیاتی ماہرین ڈنڈی مارنے لگیں، تو واقعی بڑا دکھ ہوتا ہے۔ خود نوشت نگاری کی صنف میں بے شمار لوگوں کا نام آتا ہے۔ سر رضا علی،جوش ملیح آبادی،رشید احمد صدیقی، عصمت چغتائی، ، آل احمد سرور، کلیم الدین احمد، انیس قدوائی ، ادا جعفری، شکیل الرحمن، وہاب اشرفی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس طویل فہرست میں کسی ایسے آدمی کا نام نہیں جو یونیورسٹی یا ادبی پارٹی اورسکہ بند نظریاتی ادبی گروہ سے الگ رہ کراردو زبان کی زلفِ پریشاں کی مشاطگی میں مصروف ہو۔آخر کیا وجہ ہے کہ اس فہرست میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا اور شیح الاسلام مولانا حسین احمدمدنی کا نام نہیں آتا۔ بعض شدت پسند حضرات تو مولانا عبدا الماجد دریابادی کی خود نوشت کو بھی ہضم کرجاتے ہیں۔ تجدد پسند اُدباء اس فہرست میں زیادہ سے زیادہ مولانا جعفر تھانیسری کا نام لیتے ہیں اور وہ بھی اس لیے کہ دستیاب تاریخی دستاویزات کے مطابق ان کی خود نوشت تواریخ عجیب(کالاپانی) کو ارود میں پہلی خود نوشت ہونے کا شرف حاصل ہے۔مصیبت یہ ہے کہ اگر کالاپانی کو پہلی خود نوشت تسلیم نہیں کیا جائے گا تواردو میں خود نوشت نگاری کی تاریخ کو اپنے آغاز کے لیے کئی سال مزید انتظار کرنا پڑے گا۔کیا یہ پلے درجے کی علمی اور ادبی بد دیانتی نہیں؟جب کہ مدارس کی چہار دیواری میں پرورش پانے والے ان بوریہ نشیں علماء کی خود نوشتوں کو پڑھیے تو وہ معلومات کا جامِ جہاں نما معلوم ہوتی ہیں۔ ان کی زبان میں سادگی بھی ہے اور سلاست بھی۔اختصار بھی ہے اور جامعیت بھی۔ واقعات اور قصوں میں صداقت بھی ہے اور بیانیہ کی چاشنی بھی۔ان کے مشمولات جگ بیتی بھی ہیں اور آپ بیتی بھی۔ ہاں آج کل کی سطحی رومانیت اور عشق و عاشقی کے جھوٹے اور فرضی لطیفوں سے ان کی تحریریں خالی ہوتی ہیں، معاشقہ بازی کے معاملات اور رو مانٹک قصوں سے وہ کیوں سرو کار رکھیں کہ یہ عشق مجازی کا بھی ادنی ترین درجہ ہے؛ لیکن ان کی تحریروں میں عشقِ حقیقی کے نمونے وافر مقدار میں ملتے ہیں۔اور یہی درجہ کسی بھی سچے عاشق کا منزلِ مقصود ہوتا ہے۔اور یہ بھی کہ خود نوشت نگاری اپنی خودی سے آشنائی کا مضبوط ذریعہ ہے، جس کی وساطت سے نفس شناسی ہی نہیں، خدا شناسی کی راہ بھی آسان ہوتی ہے۔ عربی کا مقولہ ہے مَنْ عَرَفَ نَفْسَہ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہ (جواپنے آپ سے آشنا ہوگیا، اس کو معرفتِ خداوندی حاصل ہوجائے گی۔)اور اردو شاعری کے مطابق اگر خدا کو اپنا جلوہٴ جہاں آرا دیکھنا منظور نہ ہوتا تو شاید یہ دنیا بھی عدم سے وجود میں نہ آتی۔اسی لیے غالب نے کہا ہے:
دہر جز جلوہٴ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے ، اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
شیخ العرب و العجم، اسیرِ مالٹا اور عظیم مجاہد آزادی مولانا حسین احمد مدنی کی خود نوشت ”نقش حیات“کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی متعصبانہ اور جانب دارانہ معاملہ روا رکھاگیا ہے۔ ان کی خود نوشت جو آپ بیتی اور جگ بیتی دونوں کا حسین سنگم ہے، ہماری ادبی بے حسی کی وجہ سے ادبی تحقیقات کا مرکز بننے سے محروم رہی ہے۔ خود نوشت نگاری کی تاریخ اور تنقید پراردو میں حالیہ برسوں میں جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں، ان میں بہت کم ان کی کتاب کا ذکر کیاگیا ہے اور جن ایک آدھ لوگوں نے تحقیق کے مرغے کو حلال کرنے کے لیے اپنی کتاب کے کسی کونے میں اس کاذکر کیا ہے تو انھوں نے بھی ادبی معیار بندی کا خون کردیا ہے۔ ان کی خود نوشت کا قُدسیہ زیدی، صبیحہ انور اور صدف فاطمہ نے ذکر کیا، وہاج الدین علوی اورسید عبد اللہ نے نام لیا او ر وہیں سے ممتاز فاخرہ نے بھی اخذ کیا ؛ لیکن بس اس حد تک کہ نام شماری کے فرضِ کفایہ کی ادائیگی میں کمی نہ رہ جائے۔ڈاکٹر صدف فاطمہ کو چھوڑ کرکسی محقق یا ریسرچ اسکالرنے اس کی ، مذہبی یا تاریخی قدر و قیمت پر تفصیل سے بحث نہیں کی۔ پوری اردو دنیا کو مصنفہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے اپنی کتاب”اردو میں خود نوشت سوانح نگاری (۱۹۴۷/ کے بعد)“ میں اس کتاب کے مضامین اور اس کی مذہبی اور تاریخی اہمیت کو بھی مرکز نظر بنایا ہے۔ڈاکٹر عبد اللہ نے جو اس سلسلے میں سرخیل کی حیثیت رکھتے ہیں بس اتنا لکھا کہ:
”مولانا حسین احمد مدنی نے کوئی بڑا دعوی نہیں کیا۔ محاسبہٴ نفس کے فرض سے پوری طرح باخبر رہنے کے باوجود اپنی سوانح عمری تدین،اخلاق آموزی اور واقعات سیاسی کی خارجی تفصیل کے مقصد سے مرتب کی ہے۔“(میر امن سے عبد الحق تک، ص:۴۱۲)
اور وہاج الدین علوی صاحب نے اپنی کتاب کا ماحصل لکھتے ہوئے بس یہ دو جملے لکھے کہ
”نقشِ حیات، مولانا حسین احمد مدنی کی خود نوشت ہے۔ اس خود نوشت میں مولانا نے سیاسی حالات اور علمائے دیوبند کے کارناموں کا ذکر کیا ہے۔“(اردوخود نوشت، فن اور تجزیہ، ص:۴۱۹، شعبہٴ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی، ۱۹۸۹/)
مجھے گلے شکوے نہیں کرنا ہے۔ یہ تو معزَّز کو معزِز اور موٴثِر کو موٴثَّر بولنے والے اہلِ ادب اور اردواکادمیوں کے ذمے داران کا محبوب مشغلہ ہے۔ مجھے تو نقشِ حیات کوخود نوشت نگاری کے لیے مقررہ پیمانے پر ادبی زاویہٴ نظر سے دیکھنا ہے اور اس کو تقابل و تجزیے کی اس میزان پر تولنا ہے، جس پر عموماً خود نوشت سوانح عمریوں کو ہمارے نقاد تولا کرتے ہیں۔آخر وہ کون سا پیمانہ ہے جس کے ذریعے ادب اور غیر ادب کے مابین خط کھینچاجاتا ہے۔کیا صرف زبان و ادب اور ادبی تحریکات کی بحث پر مبنی خود نوشت ہی ادب کے زمرے میں آتی ہے؟ کیا صرف مشاعروں، ادبی مذاکروں اور جام و ساغر کی محفلوں کے ذکر سے پُر خود نوشتوں کے سر پر ہی ادب کا تاجِ زرنگار کھا جاسکتا ہے؟بادہ و ساغر کے بغیر بھی تو مشاہدہٴ حق کی گفتگو ہوسکتی ہے۔کیا یہ پیمانہ عدل و انصاف سے میل کھاتا ہے، یا پھر یہ اپنی ذہنی عیاشی ہے کہ کس کو ادب کے نگار خانے میں سجانا ہے اور کس کوادب کے دائرے سے دودھ سے مکھی کی طرح باہر نکال کر پھینک دینا ہے۔ کسی معیار بندی کا یہ پیمانہ تو صحیح ہو نہیں سکتا۔ ادب تو قاری اور ادیب کے مابین کا مقدس رشتہ ہے۔ کوئی تحریر قاری کے باطن کو اپیل کرتی ہے اور اس کو کتھارسس کے مراحل سے گزارنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس کو ادب کے نگار خانے میں جگہ دی جاسکتی ہے۔ اردو زبان کے اسرارو رموز سے ناواقفیت کا الزام تو اردو کے سب سے بڑے شاعر علامہ اقبالؔ اور ترقی پسندوں کے میر فیض احمد فیضؔ پر بھی لگایا گیا ہے؛ لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ علامہ اقبالؔ اور فیضؔ کاکیا مقام ہے اور لاکھوں کی تعداد میں موجود دوسرے شاعراور ادیب ان کے سامنے کہاں کھڑے نظر آتے ہیں۔ مدح و ذم یاتحسین و تنقیص سے اشخاص یا فنون کی معیار بندی ممکن نہیں۔ مولانا محمد حسین آزادؔ کے ا ستاد ذوؔق کو بڑھا چڑھا کر پیش کردینے اورپہلے ایڈیشن میں مومنؔ کو نظر انداز کردینے اور مرزا عالبؔ کا یوں ہی سر سری ذکر کردینے کی وجہ سے ذوؔق ،غالبؔ اور مومنؔ سے بڑے نہیں ہوگئے۔ وقت سب سے بڑا منصف ہے۔مولانا محمد حسین آزادؔ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے بعد کوئی عبد الرحمن بجنوری، کوئی مالک رام، کوئی احتشام حسین، کوئی شمس الرحمن فاروقی بھی پیدا ہوگا جو تعیینِ قدر کا ایسا پیمانہ متعین کرے گا جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔آنے والے وقت نے ثابت کردیا کہ کہاں غالبؔ ومومنؔ اور کہاں ذوقؔ۔ صرف شہ کا مصاحب بن کر ادبی محفلوں کی صدارت کرنے سے کوئی بڑا نہیں ہوجاتا۔
مولانا حسین احمد مدنی نے ”نقشِ حیات“ کسی ادبی قلابازی یاکسی ایوارڈ کے حصول یا محض اپنے باطن کی اپیل پر نہیں لکھی تھی، جس میں خود ستائی یا نمود و نمائش کا عنصر موجود ہو؛بلکہ دوستوں اور بے تکلف احباب کے اصرار نے انھیں قلم اٹھانے پر مجبور کیا تھا۔جب آپ نینی جیل میں قید وبند کی زندگی گزار رہے تھے تو بعض مخلص خدام نے تیری زبان، تیری کہانی ،تیرا قلم کے استدلال کے ساتھ، یہ درخواست رکھی کہ نہ صرف اپنی ذاتی اور خاندانی زندگی کے نشیب و فراز کی مفصل روداد مرتب کردی جائے؛ بلکہ جنگِ آزادی کی مختلف تحریکوں کے دوران اپنے عینی مشاہدات اور تاریخی واقعات کو بھی قلم بند کردیا جائے؛ تا کہ علم و معرفت کا یہ کشکول آنے والے موٴرخین کے لیے مشعل کا کام دے سکے۔ اور بہت سے ان واقعات سے پردہ اٹھ سکے جو کسی وجہ سے اب تک ہماری نظروں سے اوجھل ہیں اور جن کی روشنی میں ہندستان کے باشندگان اور خاص طور سے مسلمان اپنے مستقبل کی تعمیر کا نقشہ مرتب کرسکتے ہیں۔یہ کتاب کوئی یک شبینہ نہیں؛ بلکہ نو سالہ کدو کاوش اور ذہنی ریاضت کا نتیجہ ہے۔ ۱۹۴۴/ میں اس کا آغاز ہوا اور اس کا اختتام ۱۹۵۳/ میں ہوا۔شاہ پار ے اتنی طویل ریاضت کے بعد ہی وجود میں آتے ہیں۔ حروف کی نقش گری اتنا آسان کام نہیں اور پھر یہ بھی کہ انھوں نے دوسری مصروفیات سے بھی ہاتھ نہیں کھینچا تھا؛ بلکہ انھیں قال اللہ اور قال الرسول کی محفلِ علم و معرفت سجانے اور تصوف و سلوک کی راہ پر چلنے والے ارادت مندوں کی دست گیری کے ساتھ سیاست کی زلف پریشاں کو بھی سنوارنا تھا کہ
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔پہلا حصہ۴۴۸ صفحات تک پھیلا ہوا ہے۔ شروع کے ۱۸۰/ صفحوں میں خاندانی اور شخصی کوائف درج ہیں۔ اس کے بعد اپنے استاد گرامی شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کا مختصر تذکرہ کر کے اس وقت کی مروجہ ہندستانی سیاست کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں انگریزوں کی ظلم پیشہ طبیعت کا بیان بھی ہے اور ہندستانیوں خصوصاً مسلمانوں کی مظلومیت کی دل خراش داستان بھی۔ دوسرا حصہ ۳۵۲/ صفحات کو محیط ہے۔ جس میں اسلامی ریاستوں پر یورپی ممالک کی یورش اور استخلاصِ وطن کے لیے شاہ عبد العزیز، سید احمد شہید اور حضرت شیخ الہند کی انقلابی تحریکوں کا تفصیلی جائزہ شامل ہے۔
“نقش حیات“ مولانا مدنی کی تعلیمی، تدریسی اور سیاسی زندگی کا بیان ہی نہیں؛ بلکہ ملکی اور بیرونی حالات و کوائف کا بھی حسین مرقع ہے۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کتاب پر تعارفی کلمات میں لکھتے ہیں
”یہ کتاب صرف حضرت مد ظلہ العالی کی سوانح حیات ہی نہیں رہی؛ بلکہ ہندستان میں انگریزوں کی آمد سے لے کر ان کے اقتدار کے خاتمے تک تمام نمایاں واقعات کا مجموعہ، برطانوی حکومت کی تباہ کن ڈپلومیسیوں اور سیاسی مکر و فریب کا انسائیکلوپیڈیا، حضرت شیخ الہند کی تحریک حریت اور اس عرصے کے سیاسی رجحانات اور انقلابی تحریکات کا وہ مستند اور جامع تذکرہ ہے ، جس کا مطالعہ ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے، جو ماضی سے سبق لے کر مستقبل کی فکر کرنا چاہتا ہے۔ اور ہند یونین میں ملت اسلامیہ کی عزت و عظمت کا آرزومند ہے۔“(نقش حیات، ص:۱۴)
”نقش حیات“ کے مضامین اور اس کی زبان و بیان اور طرزِ ادا کیسی ہے۔ میری ناقص معلومات کے مطابق، اس پر آج تک کسی ادیب یا اردو کے ریسرچ اسکالر نے تفصیلی بحث نہیں کی۔میں مانتاہوں کہ مولانا مدنی کوئی صاحبِ طرز ادیب یا انشاء پرداز نہیں تھے۔ وہ شاعر تھے، نہ ’نثر نگار‘وہ تو ایک صوفی منش آدمی تھے، جن کے اعصاب پر بس ایک ہی فکر سوار رہتی تھی اور وہ تھی ملک و قوم کی انگریزوں کے چنگل سے آزادی۔ ایسی صورت میں لفظوں کی مینا کاری کے ذریعے، کوئی اپنی زبان دانی کا کیسے ثبوت دے سکتا تھا۔مصلحِ قوم سر سید بھی بس قلم برداشتہ لکھا کرتے تھے، نہ کوئی اہتمام اور نہ التزام، نہ تکلف اور نہ تصنع، ان کے ہاں آمد ہی آمد تھی، آورد کا کوئی دخل نہ تھا ، قومِ مسلم کو جگانے کے لیے وہ ادبی ملمع سازی سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے۔ ان کا زور بس ادائے مطلب اور مدعا نگاری پر تھا۔ مولانا مدنی نے بھی انھیں نکات پر اپنی خود نوشت یا دوسری تحریریں سپرد قلم کی ہیں۔مولانا مدنی کی حالت تو حالی کے الفاظ میں اس شخص کی سی تھی جس کے گھر میں آگ لگی ہو اور وہ پاس پڑوس کے لوگوں کو مدد کے لیے پکارے، ایسی صورت میں اس کے پاس عبارت آرائی اور لفاظی کے لیے گنجائش کہاں نکلے گی۔ وہ تو بس ادائے مطلب اور مدعا نگاری پر زور دے گا۔
لیکن حقیقت کی نظروں سے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ مولانا نے اس ادائے مطلب اور مدعا نگاری میں بھی زبان و بیان کی حد بندیوں کا خیال رکھا ہے۔ ان کی تحریر کو پرھتے ہوئے خشکی اور حد سے زیادہ سنجیدگی کا احساس تو ہوتا ہے کہ انھوں نے ٹھوس علمی اور تحقیقی زبان لکھی ہے اور انھوں نے آپ بیتی سے زیادہ جگ بیتی کا خیال رکھا ہے اور پاپ نگاری کی طرف تو نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا؛کیوں کہ ایجادِ معانی تو خداداد ہوتی ہے۔ اس کے لیے جوش ملیح آبادی کی طرح فرصی عشقیہ داستانوں کا پیوند لگانے کی ضرورت نہیں۔ مولانا حقیقت و صداقت کا دامن تھامے رہنے کے باوجود زبان و بیان کی حد بندیوں کا پورا خیال رکھتے تھے۔
مجھے ذیل کی سطروں میں ”نقشِ حیات“ کے مضامین اور اس کی تاریخی یا سیاسی حیثیت سے بحث نہیں کرنی ہے کہ اگرادبی معیاربندی کا یہ اصول قرار پاجائے تو پھر ہمیں بہت سے ادبی مسلمات اور تاریخی حقیقتوں پر خطِ تنسیخ کھنچنا پڑے گا۔ واقعات اور مواد اور تاریخ نگاری کے حوالے سے کسی دوسری خود نوشت تحریر سے ”نقشِ حیات“ کا کوئی علاقہ نہیں۔
ع شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
مجھے صرف زبان و بیان اور خود نوشت کے نام نہاد اصول کی عینک سے اس کو دیکھنا ہے اور شکستہ، آڑی ترچھی لکیروں کے ذریعے ”نقشِ حیات“ کی وہ تصویر ابھارنی ہے جو ہمارے ذہنی اور ادبی جمود پر ہلکی سی ضرب لگا سکے۔
جو کچھ لکھا جائے بے تکلف اور قلم برداشتہ لکھا جائے۔ یہی طرزِ تحریر نثر میں محبوب اور مروج ہے۔ نہ جانے کیوں مولانا حالی نے شاعری میں ستر کنویں جھانک کر الفاظ کے تفحص کی ستائش کی ہے۔ خیر شاعری میں تو یہ قدم محبوب اور قابلِ تقلید ہو سکتا ہے؛ لیکن نثر خاص طور سے خود نوشت میں تو یہ طرزِ تحریر کسی بھی طرح مناسب نہیں ہوسکتا۔مولانا مدنی کے موئے قلم سے ایسے بے تکلف اور پُرمعنی جملے ادا ہوئے ہیں جن پر مقفی اور مسجع تحریروں کا انبوہ قربان کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے طویل جملے نہیں لکھے ہیں کہ اس قسم کے جملوں سے جو دارز نفسی پیدا ہوتی ہے، قاری اس کی مشقت کا بار اٹھانے کے قابل نہیں رہتا اور وہ اکتاہٹ کی گرفت میں کتاب کو ایک طرف ڈالنے پر اپنے کو مجبور پاتا ہے۔ ”نقشِ حیات“ میں اکثر یک سطری جملے استعمال کیے گئے ہیں۔ اور بہت سے تفریعی جملوں کا اختتام ایک ہی حرف پر ہونے کی وجہ سے موسیقیت کی چاشنی بھی پیدا ہوتی ہے۔جملے اتنے چھوٹے اور پر زور ہیں کہ ان میں ڈرامائی مکالموں کی شان پیدا ہوگئی ہے۔مولانانے حسب و نسب سے جنم لینے والے امتیازات کو ایک غیر اسلامی تصور قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:
”اور روح نکلنے کے بعد تو جسمِ انسانی خواہ شریف کا ہو یا رذیل کا، بادشاہ کا ہو یا فقیر کا، قوی کا ہو یا ضعیف کا؛جس حالت پر پہنچ جاتا ہے سب کو معلوم ہے۔ جماد محض ہوکر پھولتا پھٹتا ہے، سڑتا گلتا ہے، کیڑے پڑتے ہیں، بدبو سخت پیدا ہوتی ہے، پیپ اور لہو بہتا ہے اور زمین میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے۔ یہاں نہ شرافتِ نسبی کچھ فرق کرتی ہے ، نہ دولت و ثروت، نہ حکومت و قوت“ (ص:۳۲-۳۳)
مولانا حسین احمد مدنی کو شاعری سے کوئی خاص لگاوٴ نہیں تھا؛ لیکن پھر بھی فارسی اور عربی کے بہت سے اشعار انھیں ازبر تھے، جن سے وہ اپنی تحریروں میں موقع بہ موقع استدلال کرتے ہیں۔ ان اشعار کی تعداد غبارِ خاطر کی طرح اتنی تو نہیں ہے کہ اس کے لیے محققین الگ سے اشاریہ ترتیب دیں؛ لیکن فارسی کے جتنے اشعار بھی ان کے قلم سے نکلے ہیں وہ بے وقت کی راگنی معلوم نہیں ہوتے، ان اشعار کا مفہوم مضمون اور مخاطب کے حسبِ حال ہے۔ ایک جگہ اپنے اوپر اور اپنے خاندان پر خدائی انعامات و اکرامات پر شکریہ سے قاصر رہنے پر استدلال کرتے ہوئے فارسی کے یہ اشعارلکھتے ہیں:
اگر بروید از ہر مو زبانم
ادائے شکرِ لطفش کے توانم
من آں خاکم کہ ابرِ نوبہاری
کند از لطف بر من قطرہ باری
برطانوی سامراج نے جس طرح مکر و فریب سے کام لے کراپنے ارد گرد بد اطواروں، بدقماشوں اور جرائم پیشہ افراد کا گروہ اکٹھا کرلیا تھا، اس پر طنز کرتے ہوئے یہ شعر رقم کرتے ہیں:
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر باکبوتر باز با باز
مولانا اردو کے قدیم دواوین پر بھی نظر رکھتے تھے، اساتذہ کے سیکڑوں اشعار ان کے حافظے میں موجود تھے۔ فارسی کی طرح ہی کہیں کہیں اردو کے اشعار سے بھی انھوں اپنی بات کو مزین کیا ہے۔ اپنے والد کے حبِّ نبوی اور مدینہ منورہ سے عشق و محبت کو ان اشعار کی آنچ دی ہے کہ:
مریضِ عشق پر رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
علمائے اہلِ سنت اور علمائے دیوبند کے سر پر جس طرح حُسام الحرمین میں بے سروپا الزامات کا ٹھیکر ا پھوڑنے کی کوشش کی گئی تھی، اس کا دنداں شکن جواب دیتے ہوئے یہ شعر لکھا کہ
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
جب اپنے استاد اور روحانی پیشوا حضرت شیخ الہند کی تجہیز و تکفین میں شرکت سے محروم رہ گئے تو اپنی حسرت کا اظہار اس شعر سے کیا کہ
قسمت کی بد نصیبی کو صیاد کیا کرے
سر پر گرے پہاڑ تو فرہاد کیا کرے