امام انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی کی علمی تصنیفی اور اشاعتی خدمات از مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ العالی

امام انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی کی علمی تصنیفی اور اشاعتی خدمات از مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ العالی

in ALL, BLOG, MOLANA UBAIDULLAH SINDHI, سوانح, شخصیات, کالمز, مضامین حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ العالی, مولانا عبیداللہ سندھی on December 19, 2024

مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ العالی مولانا عبید اللہ سندھی کی علمی تصنیفی اور اشاعتی خدمات

حضرت مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری کا فکر انقلاب جلد 5 جنوری 2017 میں شائع ہونے والا مقالہ

امام انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی کی علمی تصنیفی اور اشاعتی خدمات

بر صغیر پاک و ہند میں دارالعلوم دیو بند ایک ایسا عظیم الشان ادارہ ہے کہ جس کی تعلیم و تربیت نے ایسی بلند نظر شخصیات پیدا کی ہیں، جو اپنی ذات میں ایک انجمن اور علم و ادب کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ یہاں کے تربیت یافتہ کچھ ایسے اولو العزم لوگ ہیں ، جو شریعت کے محقق عالم ربانی ، طریقت نبویہ کے صاحب جذب فرد و کیفیات روحانی کے شناور اور حریت و آزادی و سیاسی جدو جہد کی عظیم انقلابی شخصیات کے طور پر اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔

دارالعلوم دیو بند کی تربیت یافتہ ان شخصیات میں سے ایک نمایاں نام امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی کا ہے، جنھوں نے رجب 1308ھ / فروری 1891ء میں حضرت شیخ الہند مولانامحمود حسن سے سند اجازت حاصل کر کے دار العلوم دیو بند سے فراغت حاصل کی ۔

مولانا عبید اللہ سندھی ہندوستان کی آزادی اور حریت کے سرگرم مجاہد، انقلابی رہنما اور سیاست اور فلسفے کے میدان کے عالی دماغ مفکر تھے ۔ اس حوالے سے انھوں نے بڑا مجاہدانہ انقلابی کردار ادا کیا ہے۔ اس کے ساتھ مولانا سندھی نے ساری عمر علوم و افکار کو قلم بند کرنے اور تصنیف و تالیف کا کام بھی کیا ہے۔ انھیں اپنے تعلیمی دور سے ہی تصنیف و تالیف کے ساتھ بڑا شغف رہا ہے۔ چناں چہ مولانا سندھی نے دارالعلوم دیوبند میں تعلیم کے دوران ہی رمضان 1307ھ مئی 1890ء میں اصول فقہ پر ایک رسالہ “مراصد الوصول إلى مقاصد الأصول” لکھا ، جسے آپ نے اپنے استاذ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیو بندگی کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اسے پسند فرمایا۔

مولانا عبید اللہ سندھی کی علمی تصنیفی اور اشاعتی خدمات 

مولانا عبید اللہ سندھی کی علمی تصنیفی اور اشاعتی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو اس کی تفصیلات کچھ اس طرح سے ہیں ۔ دارالعلوم دیو بند سے تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا عبید اللہ سندھی 1891 ء سے 1900 ء تک سندھ کے مشہور قصبے امروٹ شریف ضلع سکھر میں تشریف فرما ر ہے۔ یہاں وہ مسلسل آٹھ نو سال درس و تدریس، تصنیف و تالیف اور تحریر و تقریر میں مشغول رہے۔ اس دوران انھوں نے نہ صرف کتابوں کی اشاعت کے لیے مطیع قائم کیا ، بلکہ درج ذیل کتب تصنیف و تالیف کیں

-1-

تعليق على معاني الآثار للإمام الطحاوى جس میں امام طحاوی کی کتاب معانی الآثار پر حواشی اور تعلیقات لکھی ہیں -2-

تعليق على فتح القدير لابن الهمام جس میں امام ابن الہام کی کتاب ”فتح القدیر“ پر حواشی اور تعلیقات لکھیں اور اس کے مشکل مقامات کو حل کیا -3-

فتح السلام لابواب بلوغ المرام جس میں بلوغ المرام کے ایک حصے کی شرح لکھی۔ -4-

شرح سفر السعادت امام فیروز آبادی کی کتابسفر السعادت کے ایک حصے کی شرح لکھی۔ -5-

تخريج ما فی الباب للترمذی جس میں امام ترمذی کی کتاب “جامع ترمذیمافی الباب میں بیان کردہ راویوں کی احادیث کی تخریج کی اور ہر ایک باب سے متعلق احادیث جمع کی ۔ -6-

تخريج احاديث الغنية للشيخ عبد القادر جيلاني  جس میں شیخ عبد القادر جیلانی کی كتاب غنية الطالبین کی احادیث کی تخریج کا کام کیا۔ ان تعلیقات و تخریجات کی کتابوں کے علاوہ بعض مستقل رسائل بھی تالیف کیے -7-

ازالة الشبهه عن فرضية الجمعہ جمعہ کی فرضیت کے حوالے سے بہت سے شبہات کا ازالہ کرنے کے لیے یہ رسالہ تالیف کیا۔ خاص طور پر سندھ کے اہم قصبات میں وہاں کے حکمرانوں کی جانب سے جاری کیے گئے جمعات کے جواز کو فقہی آرا کی روشنی میں واضح کیا۔ -8-

تهذيب رفع اليدين للامام البخاری امام بخاری کے رسالے رفع یدین کی تہذیب و ترتیب پر مشتمل ہے۔ -9-

تنسيق احاديث بدء الوحى من الجامع الصحیح، امام بخاری کی کتاب الجامع الصحیح (بخاری شریف) کے پہلے باب میں بدء الوحی سے متعلق احادیث کو مربوط طور پر سمجھنے کے لیے یہ رسالہ لکھا۔

محمود المطابع کے نام سے ایک اشاعتی ادارے کا قیام

امروٹ شریف میں قیام کے دوران مولانا عبید اللہ سندھی نے کتابوں اور رسائل کی اشاعت کے لیے ایک مطبع قائم کیا ، جس کا نام اپنے استاذ ومر بی حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیو بندی اور شیخ مولانا تاج محمود امروٹی کے اسمائے گرامی کی مناسبت سے “محمود المطابع رکھا ، جہاں سے سندھی زبان میں محرم 1317ھ بمطابق 1899ء میں ایک ماہنامہ “ھداية الاخوان ”شائع کرنا شروع کیا۔ اس رسالے کے مضامین کے لیے چار عنوانات مقرر کیے گئے، پہلا عنوان تاریخ تھا، جس میں تاریخ و سوانح اور سیرت کے مضامین شامل ہوتے تھے۔ دوسرا عنوان حدیث و فقہ کے حوالے سے تھا، جس میں احادیث اور فقہی مسائل زیر بحث آتے تھے۔ تیسرا عنوان طب سے متعلق تھا، جس میں طبی مسائل پر رہنمائی دی جاتی تھی۔ جب کہ چوتھا عنوان حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کی کتاب فتوح الغیب کے سندھی ترجمے کے لیے وقف تھا۔ اس مطبع سے مولانا سندھی نے چند کتابیں بھی چھپوائیں ، تاکہ عام سندھی مسلمانوں کو اس سے نفع ہو۔ نیز خاص طور پر اہل علم کے لیے عقيدة الامام الطحاوی کو خوب صورت انداز میں طبع کرایا ۔

سندھی زبان میں ترجمه قرآن حکیم

مولانا سندھی نے قرآن حکیم کا سندھی زبان میں ترجمہ بھی شروع کیا تھا، اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں: میں نے فصیح سندھی زبان میں قرآن حکیم کا ترجمہ بھی شروع کیا تھا، لیکن پھر ہمارے شیخ ابو الحسن ( تاج محمود ) امروٹی نے اس عظیم کام کی طرف خود توجہ فرمائی۔ پھر اس کی تصحیح کے کام میں میں ان کے معاون کے طور پر کام کرتا رہا۔ چناں چہ چند سالوں میں یہ ترجمہ مکمل ہو کر طبع ہو گیا ۔ امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی اور شیخ المشائخ حضرت مولانا تاج محمود امروٹی کا تحریر کردہ قرآن حکیم کا یہ سندھی ترجمہ گزشتہ ایک صدی سے سندھ میں رہنے والے والے مسلمانوں کے لیے رہنمائی کا بڑا ذریعہ ہے۔ یہ ترجمہ مسلسل طبع ہو رہا ہے، خاص طور پر تاج کمپنی لمیٹڈ نے بہت خوب صورتی کے ساتھ اس کی اشاعت جاری رکھی ہوئی ہے۔ اسی زمانے میں مولانا عبد اللہ سندھی نے اپنی یہ تصانیف اور تالیفات حضرت شیخ الہند مولا نا محمد حسن اور دیو بندی کی خدمت میں پیش کیں۔ حضرت شیخ الہند نے انھیں پسند فرمایا۔ اسی موقع پر حضرت شیخ الہند نے پسند نے سیاسی کام کرنے کا حکم دیا اور اُس کے لیے دار العلوم دیو بند کے طرز پر سندھ میں ایک مدرسہ قائم کرنے کا حکم فرمایا۔ چناں چہ مولانا نے حیدر آباد سندھ کے قریب ایک گاؤں پیر جھنڈا میں ایک مرکز دار الرشاد کے نام سے قائم کیا۔ انھوں نے سات سال تک یہاں پر علمی اور سیاسی کام سرانجام دیے۔

جمعیت الانصار کا قیام اور اس کے تحت اشاعتی کام

مولانا عبید اللہ سندھی رمضان 1327ھ / 1909ء میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن کے حکم سے سندھ سے دیو بند تشریف لے آئے ۔ اور اسی سال 27 رمضان کو جمعیت الانصار قائم کی ۔ جس میں دار العلوم دیو بند کے گزشتہ چالیس سال کے فاضلین کی اجتماعی قوت پیدا کرنے کا نظام قائم کیا گیا تھا۔ نیز عوام میں تحریک حریت پیدا کرنے کے لیے جمعیت الانصار کے تحت اجلاس ہائے عام مؤتمر الانصار کے عنوان سے منعقد کیے۔ جمعیت الانصار کی تحریک سے ہی شعبان 1328ھ / اگست 1910 میں دارالعلوم دیو بند سے ماہ نامہ القاسم کا پہلا نمونے کا شمارہ جاری ہوا۔ جس کے بعد تسلسل کے ساتھ اس کی اشاعت ہوتی رہی۔ اس ماہنامہ میں دیگر بزرگوں کے مضامین کی طباعت کے ساتھ ساتھ مولانا عبید اللہ سندھی کے تحریر کردہ مقالات بھی شائع ہوتے رہے۔ خاص طور پر مولانا سندھی کی تحریر کردہ جمعیت الانصار کی سرگرمیوں پر مشتمل روئیداد اور اس کے اغراض و مقاصد، دستور العمل اور قواعد وضوابط وغیرہ طبع ہوتے رہے ۔ چار سال تک آپ نے بڑی محنت اور جدو جہد سے حضرت شیخ الہند کے علم کے مطابق جمعیت الانصار کے لیے دن رات کام کیا۔ جمعیت الانصار کے ایک اجلاس عام میں اس کی ایک روئیداد پیش کرتے ہوئے مولانا عبید اللہ سندھی دارالعلوم دیو بند کے مقاصد و اہداف کے تناظر میں اُس دور کے عمومی تصنیفی اور اشاعتی پہلو کے نقائص بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں مدرسہ عالیہ دیو بند نے تمام مقاصد کی رفتہ رفتہ تکمیل شروع کر دی ہے اور اگر خدا تعالیٰ کو منظور ہے، توفیق الہی شامل حال ہے تو بہت جلد وہ اس درجہ تک پہنچ جائے گا کہ مسلمانوں کو کسی دوسرے دارالعلوم کی حاجت نہ رہے گی ۔ جن مقاصد اور مدراج کا اظہار (1328ھ / 1910ء میں ) عظیم الشان جلسہ دستار بندی میں مسلمانوں کے تیس ہزار کے مجمع کے سامنے کیا گیا تھا، بحمد اللہ ان کی تکمیل شروع ہو گئی ہے۔ اگر یہ سب مقاصد پورے اور مکمل ہو گئے اور ان شاء اللہ تعالیٰ ہوں گے تو جو جو نقص تعلیم اور طریقہ تعلیم وتربیت و تہذیب طلبہ اور کسب مکارم اخلاق میں ہیں ، وہ سب رفع ہو جائیں اور حفاظت اسلام اور اشاعت علوم کی تمام ضرورتیں پوری ہو جائیں گی۔

اس وقت مسلمانوں کو یہ دقت کا سامنا ہے کہ حفاظت اسلام اور اشاعت مذہب کے واسطے جا بہ جا انجمنیں تو قائم ہوگئیں اور ان میں واعظ بھی مقرر کیے گئے مگر کام کے واعظ نہیں یا ملتے ، نہ واعظ بننے کے لیے تحصیل علم اور کسی قسم کی سند کی ضرورت باقی رہی ہے۔ نہ واعظوں کے لیے خاص ان اوصاف کے ساتھ متصف ہونا شرط ہے، جن کی ضرورت ایک ایسی جماعت کو ہے، جو رہبر اور ہادی و مبلغ ہو کر نکلی ہے۔ ان میں اکثر و بیش تر او خویشتن گم است ، کرا راهبری کند (جو خود گمراہ ہے، وہ کیسے رہبری کرے گا۔ ) کے مصداق ہوتے ہیں۔ علی ہذا تصنیف و تالیف کا صیغہ بھی ایسا عام ہو گیا کہ مصنف بننے کے واسطے ذی علم ہونا بھی شرط نہیں رہا۔ جو شخص اردو میں کچھ لکھنے پڑھنے پر قادر ہے، اس کو مصنف بن جانے سے کوئی امر مانع نہیں ہے۔ آج اگر ہندوستان کی بے شمار تصانیف پر نظر ڈالی جاتی ہے تو ان میں کا بیش تر حصہ ایسا دیکھا جاتا ہے، جن کے مصنف ہرگز ذی علم نہیں ۔ مسلمان بے چارے کیا کریں ، ان کے ہاتھ میں اردو کی کتابیں پہنچتی ہیں ، ان کو یہ تمیز کرنا دشوار ہے کہ قابل اعتماد کون سی ہے اور ناقابل اعتماد کون سی۔ پھر لطف یہ ہے کہ تصانیف بھی معمولی مسائل میں نہیں ہیں، بلکہ عقائد و کلام اور اصول دین کے غامض (مشکل) اور دقیق مسئلوں کے متعلق ہوتی ہیں۔ اس بارے میں یہاں تک جرات بڑھ گئی کہ جو شخص اخباری مذاق اور طرز کی عبارت لکھنے پر قادر ہو گیا، چند یور چین اور جدید مصنفین کے معمولی رسالے یا اقوال اس کی نظر سے گزر گئے، وہ اپنے آپ کو ایسا محقق سمجھنے لگتا ہے کہ تمام متکلمین و مفسرین پر بے دھڑک رڈ کرنے اور طعن کرنے سے اس کو کوئی چیز نہیں روکتی ۔ تماشا ہے کہ کسی فن میں تصنیف کرنے کے واسطے اس فن کی واقفیت شرط ہوتی ہے، لیکن خاص مذہبی معاملات میں یہ شرط کسی درجے میں بھی تحوظ رکھنے کے قابل نہیں ہے۔ حدیث کا ایک لفظ نہ پڑھا ہو۔ محدثین کی اصطلاحات سے واقفیت نہ ہو۔ تفسیر میں نہ دیکھی ہوں ۔ مفسرین کے اقوال و ماخذ پر نظر نہ ہو ۔ مگر کسی حدیث کورڈ اور قبول کرنے کے لیے اپنا ذہنی معیار کافی سمجھا جاتا ہے۔ مفسرین کے تمام اقوال کا یک لخت بڑے پیرائے میں رد کرنے کے لیے یہ امر کافی ہے کہ ان کی رائے کے خلاف ہے۔ مسلمانوں کی آسمانی کتاب (قرآن مجید ) جس پر مذہب کا مدار ہے اس کو طبع اور تصحیح کر کے شائع کرنے کے واسطے مسلم وغیر مسلم کی قد بھی نہ رہی ۔ ( قرآن حکیم کے ترجموں کا تو یہ حال ہو گیا کہ جس نے چاہا چند ترجمے سامنے رکھے اور ایک نیا ترجمہ بنا دیا۔ اس میں جدت پیدا کرنے کے لیے محاورے کی پابندی اس درجہ کی کہ اصل مراد خداوند عالم کو بھی بدل ڈالا۔ اس سے بھی آگے ترقی کر کے علمی دنیا میں وقعت پیدا کرنی چاہی تو تمام محد ثین وفقہا کے خلاف اپنی رائے سے کچھ باتیں اضافہ کردیں ۔ ان تمام خرابیوں کا انسداد اور سد باب ہو سکتا ہے تو اس طرح کہ مسلمانوں کے تمام مذہبی سلاسل کا انتساب و ارتباط کسی ایک مرکز سے قائم ہو جاوے۔ ان کی دینی قوت مجتمع ہو جائے۔ ایک مذہبی دار العلوم تسلیم کر لیا جائے ، جس کے طریقے اور منوال (طرز) پر بڑے اور متوسط اور ابتدائی مدارس قائم ہو جائیں ۔ مولانا عبید اللہ سندھی کے عمدہ اسلوب بیان پر مبنی یہ تحریر اس دور کے عمومی صحافتی اور اشاعتی پہلو کے نقائص کی نشان دہی کرتی ہے۔ ان نقائص اور کمیوں کو دور کرنے کے لیے مولانا سندھی نے جمعیت الانصار کے تحت جمعیۃ التالیف و الاشاعت قائم کرنے کی تجویز پیش کی اور اس کے تحت درج ذیل اشاعتی امور کی اہمیت بیان کی (1)

ائمہ متقدمین کی کتب کی حفاظت و اشاعت ۔ (۲)

حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ کے خاندان کی کتب کی اشاعت ۔ (۳)

حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ) صاحب و حضرت مولانا رشید احمد ( گنگوہی )صاحب قدس اسرار ہما کی تالیفات کی حفاظت واشاعت ۔ (۴)

مدرسہ عالیہ کے کتب خانہ میں ہر قسم کی کتابیں فراہم کرنا۔ (۵)

اپنی جماعت کی عمدہ تالیفات – عربی۔ فارسی اردو وغیرہ کی اشاعت ۔ جمعیت الانصار کے اجلاس عام میں حضرت مولانا عبید اللہ سندھی کی اس تقریر و تجویز کے سامنے آنے پر سر پرستان دارالعلوم دیو بند حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری اور جناب صاحب زادہ حکیم مسعود احمد گنگوہی نے ان خیالات پر تحسین و آفرین فرمائی اور جمعیہ کے ساتھ پوری ہمدردی کا اظہار فر مایا۔ مولانا حبیب الرحمن مدد گار مہتمم نے اپنی اور تمام سر پرست حضرات کی طرف سے ہمت افزا برفرمائی اور فرمایا کہ بالفعل ان تجاویز کے موافق کام شروع کر دینا چاہیے ۔ اسی تجویز کے مطابق دارالعلوم دیو بند سے ماہ نامہ  القاسم اور ماہ نامہ الرشید کا اجرا عمل میں لایا گیا ، جن میں اکابر علما کی تحریرات اور تقریرات شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ نیز جمعیۃ التالیف والا شاعت کی طرف سے کچھ ہی عرصے بعد کتابوں کی اشاعت کا نظام بھی قائم ہو گیا۔ چناں چہ مولانا سندھی مراد آباد میں مؤتمر الانصار کے پہلے اجلاس منعقدہ 1911 کے موقع پر جمعیت الانصار کی روئیداد میں لکھتے ہیں

تالیف واشاعت کے محکمے میں جو کام ہوا اور ہو رہا ہے، وہ حقیقت میں سب سے زیادہ قابل قدر ہے۔ حضرت مولانا شاہ رفیع الدین صاحب کا نایاب رسالہ تکمیل الاذهان اور مولا نا محمد اسماعیل صاحب شہید کی نا در کتاب عبقات بڑی کوشش سے بہم پہنچا کر چھاپنے کے لیے دی گئی ۔ علامہ ابن تیمیہ کی نہایت بیش قیمت تصنیف  الرد على المنطقيين  کا نسخہ بھی دستیاب ہونے کے بعد طبع کے لیے دے دیا گیا ۔ اور مولانا محمد قاسم صاحب ( نانوتوی ) قدس سره کار سالہ حجة الإسلام بھی بہت ترتیب اور حسن و خوبی کے ساتھ جمعیت ( الانصار ) کے خرچ سے چھپ رہا ہے۔ اس طرح مولانا سندھی کی کوششوں سے دیو بند سے بہت عمدہ کتابیں طبع ہوئیں۔

دھلی کے قیام میں تفسیری افادات

دسمبر 1912 میں جب حکومت برطانیہ نے اپنا ہندوستانی دارالخلافہ کلکتہ سے دہلی منتقل کر لیا اور تمام سیاسی جماعتیں اس نئے مرکز میں جمع ہو گئیں تو مولانا عبید اللہ سندھی بھی حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن کے حکم سے دیو بند سے دہلی تشریف لے گئے ۔ جون 1913 میں انھوں نے مدرسہ عالیہ مسجد فتح پوری میں ” نظارة المعارف القرآنیہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس کے تحت نو جوان گریجوئیٹس اور مدارس کے فضلا کے لیے قرآنی علوم و معارف کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا تو اُن میں تقریر تحریر کی صلاحیت پیدا کرنے کی طرف بھی انھوں نے توجہ دی۔ مولانا عبید اللہ سندھی کو قرآن حکیم کے علوم و معارف سمجھنے سمجھانے کا شغف امروٹ شریف کے زمانے سے ہی رہا ہے۔ انھوں نے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن کی رہنمائی میں امام شاہ ولی اللہ دہلوی کی کتاب الفوز الكبير في أصول التفسیر میں بیان کردہ اصول تفسیر اور حجۃ اللہ البالغہ میں بیان کردہ علم اسرار الدین کی اصولی مباحث کی روشنی میں قرآن حکیم کے علوم و معارف پڑھانے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ دہلی پہنچ کر مولانا سندھی نے قرآن حکیم کے جو علوم و معارف بیان کیے، انھیں ان کے تلامذہ شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری اور خواجہ عبد الحئی فاروقی ( شیخ التفسیر جامع ملیہ دہلی ) نے قلم بند کیا تھا، جسے ان دونوں حضرات نے بعد میں مرتب کر کے شائع کیا۔ چناں چہ مولانا احمد علی لاہوری کا ترجمہ اور تفسیر قرآن حکیم قرآن عزیز انجمن خدام الدین لاہور سے طبع ہوا، جب کہ مولانا خواجہ عبدالحئی فاروقی نے تفسیر الفرقان فی معارف القرآن کے عنوان سے ان تفسیری افادات کو مرتب کر کے مکتبہ جامعہ ملیہ علی گڑھ سے شائع کیا تھا۔

دہلی کے قیام کے زمانے میں ہی 1914 ء میں مولانا سندھی نے آل انڈیا مسلم ایجو کیشنل کانفرنس منعقدہ راولپنڈی میں ایک خطبہ پڑھا، جسے اُس زمانے میں مولانا سندھی نے خود ہی شائع کیا تھا۔ بعد میں لاہور سے یہ خطبہ قرآن پاک کا مطالعہ کیسے کیا جائے ؟ کے عنوان سے شائع ہوا۔

کابل کے دور کی تحریرات

مولا نا عبید اللہ سندھی جب حضرت شیخ الہند کے حکم پر تحریک ریشمی رومال کے سلسلے میں دہلی سے کابل تشریف لے گئے اور وہاں ہندوستان کی آزادی کے لیے عارضی حکومت موقتہ ہند اور تنظیم جنود الله الربانیہ قائم کی اور اس کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے بہترین اسلوب میں خطوط اور تحریک ریشمی رومال سے متعلق تحریرات قلم بند کیں، جو نہ صرف سیاسی حوالے سے اہمیت رکھتی ہیں، بلکہ اپنے ادبی اسلوب میں بھی نمایاں حیثیت کی حامل ہیں ۔

کابل کے قیام کے زمانے میں مولانا سندھی نے لاہور سے ہجرت کر کے کابل جانے والے نوجوانوں کو قرآن حکیم کا درس دینا شروع کیا اور ان میں قرآنی اسلوب پر اعلیٰ اخلاق سکھانے اور تربیت کے لیے قرآن حکیم سمجھے سمجھانے کے لیے تفسیری افادات بیان کیے۔ اس دور کے تفسیری افادات اُن کے نو جوان رفیق سفر کے ظفر حسن ایک نے قلم بند کیے تھے، جو تین جلدوں میں قلمی صورت میں الدين و السياسة في القرآن کے عنوان سے ہمارے پاس موجود ہیں۔

ترکی سے سروراجی عوامی حکومت کے انقلابی منصوبے کی اشاعت

اسی طرح مولانا سندھی اپنی جلا وطنی کے زمانے میں جب تر کی تشریف لے گئے تو کانگریس کمیٹی کابل کے صدر کی حیثیت سے مستقبل میں ہندوستان کی سیاسی اور معاشی تشکیل نو کے لیے سروراجی (عوامی ) حکومت کا ایک مکمل دستوری خاکے پر مشتمل ایک انقلابی منصوبہ پیش کیا۔ یہ دستوری منصوبہ ہندوستان میں بسنے والی تمام اقوام کے درمیان اتحاد کی اساس پر ملکی نظم ونسق کا ایک جامع پروگرام پر مشتمل ہے۔ مولانا سندھی ۔ نے یہ انقلابی منصو بہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں ہندوستانی منزل آق سرائے استنبول سے ستمبر 1924 کو شائع کیا تھا۔ اس منصوبے کی اشاعت کے بعد اسے مختلف ذرائع سے ہندوستان بھیجا گیا لیکن برٹش گورنمنٹ نے ہندوستان میں اس کے داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے باوجود ہندوستان کے اہم لیڈروں مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جو ہر اور پنڈت جواہر لال نہرو وغیرہ کی نظر سے گزرا اور اس پر ان کا رد عمل بھی سامنے آیا تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اسے مسائل کے حل کی ایک عمدہ کوشش قرار دیا تھا۔

حرمین شریفین میں تصنیفی اور اشاعتی کام

مولانا سندھی اپنی جلاوطنی کے زمانے میں جب مکہ مکرمہ پہنچے تو انھوں نے 1930 میں ایک شاہ کار کتاب” التمهيد لتعريف ائمة التجديد تصنیف کی ، جس میں انھوں نے علمائے دیو بند اور ولی اللہی سلسلے کے اکابرین بالخصوص شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی کے سلسلۂ اسناد اور ولی اللہی سلسلے کے علوم وافکار کا تعارف بڑی جامعیت کے ساتھ پیش کیا۔

اس کتاب کی محققین علمائے کرام کے نزدیک ہمیشہ سے بہت زیادہ اہمیت رہی ہے۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی مہتمم دارالعلوم دیو بند نے 1955 میں خاص طور پر دارالعلوم دیو بند کے کتب خانے کے لیے اس کتاب کے نسخے کی ایک قلمی نقل تیار کرائی تھی ، اس موقع پر آپ نے اس کتاب کے بارے میں تحریر فرمایا

 التمهيد لتعريف أئمة التجديد یہ کتاب ایک تاریخی اور علمی وسیاسی مرقع ہے ، جو حضرت مولانا عبیداللہ سندھی کے افکار صالحہ کا ثمرہ ہے۔ اس کے جلد سے جلد طبع اور شائع ہونے کی ضرورت ہے۔ احقر نے بھی اس کی ایک نقل کتب خانہ دار العلوم دیو بند کے لیے کرائی ہے۔ محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیو بند ۔ وارد حال کراچی ، 5 نومبر 1955

مولانا ابو الحسن علی ندوی نزهة الخواطر” میں کتاب کی اہمیت اور مولانا سندھی کے فکر اور نظریے کی

وسعت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں

ومن احسن ما كتب “التمهيد لتعريف ائمة التجديد بالعربية، الفه بمكة، و مقالة عن الشيخ ولى الله الدهلوى، في العدد الخاص بذالك لمجلة “الفرقان” الشهرية تدل على سعة نظره، وعمق فكرته 

مولانا عبید اللہ سندھی کی تالیفات میں سب سے بہترین کتاب عربی زبان میں لکھی گئی التمهيد لتعريف أئمة التجديد ہے۔ جسے انھوں نے مکہ مکرمہ میں تالیف کیا تھا۔ اور شاہ ولی اللہ پر ایک مقالہ ( شاہ ولی اللہ کی حکمت کا اجمالی تعارف ) جو ماہنامہ الفرقان کے خاص نمبر کے لیے لکھا تھا۔ یہ دونوں تالیفات مولانا عبید اللہ سندھی کے وسعت نظر اور فکری گہرائی پر دلالت کرتی ہیں ۔ 

اس کتاب کو مولانا عبید اللہ سندھی کے شاگرد رشید حضرت مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی ( فاضل دار العلوم دیوبند) نے تحقیق کے ساتھ سندھی ادبی بورڈ حید آباد سندھ سے 1396ھ / 1976ء میں شائع کیا تھا۔ اس کے شروع میں مولانا قاسمی نے ایک مبسوط مقدمہ بھی تحریر کیا تھا۔ جس میں مولانا سندھی کا مکمل سوانحی خاکہ پیش کیا ہے اور اس کتاب کے قلمی نسخوں کا تعارف کرایا ہے۔

حرمین شریفین میں قیام کے دوران ہی مولانا عبید اللہ سندھی نے ربیع الثانی 1352ھ / جولائی 1933ء میں امام شاہ ولی اللہ دہلوی کی کتاب “المسوى من أحاديث المؤطا اپنی تحقیق کے ساتھ شائع کرائی ، جس میں حضرت سندھی نے بڑے محققانہ حواشی تحریر فرمائے ۔ اس کتاب کے ناشر شیخ عبدالوہاب دہلوی كلمة الناشر میں لکھتے ہیں

آخر میں میں اس کتاب کی اشاعت میں تعاون کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

خاص طور پر اپنے استاذ علامہ شیخ عبید اللہ سندھی کا کہ جنھوں نے اس علمی کتاب کی اہمیت میرے سامنے واضح کی۔ نیز انھوں نے اس کتاب کا اپنا قیمتی نسخہ بھی اس سلسلے میں عنایت فرمایا اور اس پربعض مفید حواشی لکھے ۔

حرمین شریفین میں قیام کے دوران حضرت سندھی نے قرآن حکیم کی تفسیر اور احادیث کی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ خاص طور پر امام شاہ ولی اللہ دہلوی کی کتابیں حرمین شریفین میں بڑے اہتمام کے ساتھ پڑھاتے رہے۔ خاص طور پر ولی اللہی اُسلوب پر قرآن حکیم کی تفسیر عربی ، اردو اور سندھی تینوں زبانوں میں املا فرمائی، جنھیں ان کے شاگردوں میں سے بالترتیب علامہ موسیٰ جار اللہ نے عربی میں، مولانا عبداللہ لغاری نے اردو میں اور مولا نا محمد المدنی ( فاضل دارالعلوم دیو بند ) نے سندھی زبان میں قلم بند کیا۔ یہ حضرت سندھی کے املا کرائے ہوئے دروس تفسیر ہیں۔ ان تفسیری دروس کے ابتدائی کچھ حصے ان کے شاگرد مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی نے بالترتيب الهام الرحمن، المقام المحمود اور سندھی تفسیر قرآن حکیم کے عنوان سے شاہ ولی اللہ اکیڈمی حیدر آباد سندھ سے شائع کیے تھے۔ ان تفسیری دروس کے اکثر حصے ابھی تک قلمی صورت میں ہیں۔ پورے طور پر تحقیق و تخریج کے بعد شائع ہونے کے منتظر ہیں۔ ویسے بھی یہ امالی ہیں، جو حضرت سندھی نے خود تحریر نہیں فرمائیں ، نہ ہی قلم بند ہونے کے بعد حضرت سندھی نے ان کی تصحیح کی ہے۔ اس لیے بہت حزم و احتیاط کے ساتھ ان پر تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔

حرمین کے قیام کے دوران مولانا سندھی نے امام شاہ ولی اللہ دہلوی کی کتابوں کی شروحات بھی املا کرائیں، جن میں  حجۃ اللہ البالغہ کے متن کی تصحیح اور تشریحات بیان فرمائیں ۔ آپ کے شاگردمولانا عبداللہ لغاری نے اس شرح کو  نعمة الله السابعہ کا نام دیا۔ مولانا سعیداحمد پالن پوری نے حجة الله البالغہ کے دست یاب نسخوں کو سامنے رکھ کر تحقیق وحواشی کا کام کیا ہے۔ اس میں حضرت سندھی کے ان تشریحی افادات سے بہت استفادہ کیا ہے۔ مولانا مفتی عبد القدیر صاحب کا دیا ہوا ان افادات کا قلمی نسخہ راقم سطور نے ہی اپنے رائے پور کے سفر کے دوران مولانا پالن پوری کو پہنچایا تھا۔ مولانا سندھی کی ان تصحیحات اور تشریحات نے حجة اللہ البالغہ کے صحیح نسخے کی اشاعت میں بڑا کردارادا کیا ہے۔ مولانا سعید احمد پالن پوری لکھتے ہیں 

دوسرے یہ کہ میں علامہ سندھی کی امالی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ علامہ شیخ عبید اللہ بن اسلام سندھی رحمہ اللہ دار العلوم دیو بند کے فاضل تھے۔ انھوں نے 1353ھ میں مکہ المکرمہ میں کتاب حجۃ اللہ البالغہکا درس دیا تھا۔ انھوں نے اردو زبان میں یہ دروس دیے تھے۔ ان کے ایک شاگرد نے انھیں عربی زبان میں منضبط کر کے لکھا تھا۔ یہ امالی پاکستان کے شہر چشتیاں میں تھی۔ ہم نے نہ اس کی کوئی خبر سنی تھی، نہ ہمارے سامنے اس کی نشان دہی تھی ۔ استاذ شیخ مفتی عبد القدیر حفظہ اللہ کی چند سال قبل دیو بند میں زیارت ہوئی تو ان سے ملاقات کے دوران میں نے الحجة الله البالغہ کی شرح کا ارادہ ظاہر کیا تب انھوں نے اس امالی کے بارے میں مجھے بتایا۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ یہ کتاب مجھے ارسال کریں۔ ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انھوں نے یہ کتاب ہمیں ارسال کی ۔ ہماری اس شرح میں اس امالی نے بہت زیادہ مدد دی۔ میں نے اپنے حواشی اورتعلیقات میں اس کے بہت سے اقتباسات دیے ہیں۔ اللہ تعالی انھیں جزائے خیر دے۔

اسی طرح مولانا سندھی نے امام شاہ ولی اللہ دہلوی کی دیگر کتابوں “الخير الكثير، “سطعات” اور همعات” کی صحیحات اور تشریحی فوائد بیان فرمائے ۔ حضرت شاہ محمد اسماعیل شہید کی عظیم کتاب عبقات کی شرح لکھوائی ۔ ان کے شاگردوں نے ان شروحات کو قلم بند کیا ہے اور اس کے قلمی نسخے ہمارے ذخیرے میں موجود ہیں۔

ہندوستان واپسی کے بعد تصنیفی کام

شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور دیگر حضرات کی سعی پیہم کی وجہ سے مارچ 1939ء میں مولانا عبید اللہ سندھی واپس ہندوستان تشریف لائے تو آپ نے حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی کے علوم و افکار کے فروغ کے لیے بہت سے مقالات قلم بند فرمائے ۔ جن میں ماہنامہ الفرقان کے شاہ ولی اللہ نمبر میں ایک وقیع مقالہ امام ولی اللہ دہلوی کی حکمت کا اجمالی پہلو کے عنوان سے چھپا، جو بڑی اہمیت رکھتا ہے، جسے بعد میں ” شاہ ولی اللہ اور اُن کا فلسفہ کے عنوان سے طبع کیا گیا۔ اسی طرح ہندوستان میں امام شاہ ولی اللہ دہلوی کی سیاسی تحریک کے تعارف کے لیے دوسرا اہم مقالہ شاہ ولی اللہ اور اُن کی سیاسی تحریک کے عنوان سے بیت الحکمت لاہور سے 1943ء میں طبع ہوا۔ اس پر مولانا نور الحق علوی نے تحقیقی حواشی لکھے تھے۔ اس دور میں مولانا سندھی نے جمعیت علمائے ہند کے اجلاسات میں خطبہ ہائے صدارت اور دیگر اہم مواقع پر بہت سے خطبات و مقالات تحریر فرمائے ، جو امام شاہ ولی اللہ و ہوئی کے علوم و افکار اور ان کی سیاسی تعلیمات کے حوالے سے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ خطبات و مقالات پہلے پروفیسر محمد سر در مرحوم نے لاہور سے شائع کیے تھے۔ حضرت سندھی کے دیگر دست یاب خطبات و مقالات حاصل کر کے راقم سطور نے ان سب کو تاریخی ترتیب کے ساتھ مرتب کر کے 2002 میں لاہور سے شائع کیا۔ یہ خطبات و مقالات جہاں ہندوستان کی سیاسی تاریخ کی اہم دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں ، وہیں علمی ، ادبی اور فکری حوالے سے اپنا ایک مخصوص انداز و اُسلوب بھی رکھتے ہیں، جو یقینا علمی ، ادبی اور فکری حلقوں میں اپنی ایک امتیازی شان رکھتے ہیں۔

اسی طرح مولانا سندھی نے حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی کی اہم عبارات کے مجموعے پر مشتمل ایک کتاب اپنے استاذ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن کی نسبت سے محمودیہ کے عنوان سے لکھی۔ جس کا اردو ترجمہ مولانا بشیر احمد لدھیانوی نے “عبیدیہ” کے نام سے کیا تھا۔ یہ بھی بیت الحکمت لاہور سے طبع ہوئی۔ بعد میں اس کا ایک ایڈیشن شاہ ولی اللہ کا نظریہ انقلاب کے عنوان سے مکی دار الکتب لاہور سے طبع ہوا۔ یہ وہ تمام تصنیفات و تالیفات ہیں، جنھیں مولا نا عبید اللہ سندھی نے خود تحریر فرمایا ہے اور ان کی اشاعت کا اہتمام کیا تھا۔

اس دوران مولانا سندھی کی مجالس میں بیان کیے جانے والے سیاسی افکار اور اہم علمی نکات پروفیسر محمد سرور استاذ جامعہ ملیہ دہلی نے قلم بند کیے تھے، جنھیں بعد میں انھوں نے مولانا عبید اللہ سندھی ؛ حالات زندگی ، تعلیمات اور سیاسی افکار کے نام سے ستمبر 1943 میں شائع کیا۔ یہی وہ کتاب ہے کہ جس کے بعض مجمل نکات پر بعض لوگوں کی جانب سے نکتہ چینی کی گئی تھی۔ اس کا جواب مولانا سعید احمد اکبر آبادی نے مولانا سندھی اور ان کے ناقد کے نام سے تحریر فرمایا ہے، جو پہلے قسط وار ماہنامہ ‘البرہان میں چھپتا رہا، پھر کتابی صورت میں بھی پاکستان اور ہندوستان میں طبع ہوا۔ اسی طرح پرو فیسر محمد سرور مرحوم نے اپنی ڈائری میں لکھے ہوئے حضرت سندھی کے متفرق ارشادات کو افادات و ملفوظات” کے عنوان سے 1973 میں شائع کیا تھا۔ پروفیسر صاحب کی یہ دونوں کتا بیں حضرت سندھی کی خود تحریر کردہ نہیں ہیں، بلکہ ان کے ایسے ارشادات پر مشتمل ہیں، جو پروفیسر صاحب نے حضرت سندھی سے سننے کے بعد اپنی رہائش پر آ کر قلم بند کیے ہیں ۔ ان پر حضرت سندھی کی نظر ثانی یا تصیح کا عمل نہیں ہوا۔ لہذا ان دونوں کتابوں میں مطبوعہ مواد کو حضرت سندھی کے اپنے تحریر کردہ کتب اور مقالات میں بیان کردہ افکار کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مجمل نکات و اشارات کو حضرت سندھی کے مجموعی طرز فکر عمل کے تناظر میں سمجھے بغیر درست نتیجے پر پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ یہ دونوں کتا میں اس تناظر میں تحقیق و تدوین کی منتظر ہیں۔

تفسیری افادات : قرآنی شعور انقلاب

اس دوران مولانا عبید اللہ سندھی نے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں انقلابی شعور و آگہی کے لیے قرآنی سورتوں کی تفسیر لکھوائی ، جنھیں ان کے شاگرد مولانا بشیر احمد لدھیانوی نے مرتب کر کے لاہور سے شائع کیا۔ انھیں بعد میں قرآنی شعور انقلاب کے عنوان سے مرتب کر دیا گیا ہے۔ راقم سطور نے ان سورتوں کی تفسیری مباحث کا متن تحقیق و تقدیم کے ساتھ مرتب اور مدون کر دیا ہے، جسے 2009 میں لاہور سے عمدہ کاغذ پرطبع کیا گیا۔ اس ایڈیشن میں مولانا بشیر احمد لدھیانوی کے کتب خانے سے دست یاب اصل مخطوطات کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ مولانا لدھیانوی کے ترتیب دیے ہوئے تفسیری افادات کے بارے میں حضرت مولانا عبید اللہ سندھی تحریر فرماتے ہیں

ہماری تقریریں بہت سے دوستوں نے ضبط کرلی ہیں، مگر آج تک ہم نے کسی کی تصحیح

اپنے ذمے نہیں لی ۔ مولوی بشیر احمد اور مولوی خدا بخش کی محنتوں کا ہم پر خاص اثر ہے۔ اس لیے ہم

نے اس رسالے پر نظر ثانی منظور کی۔ ہم شہادت دیتے ہیں کہ ان افکار کی ذمہ داری میں ہم بھی ان

کے ساتھ شریک ہیں۔ ہم اپنے دوستوں سے سفارش کرتے ہیں کہ وہ اپنی یادداشتیں اس طرز تفکر

کے مطابق بنالیں ۔

مولانا عبید اللہ سندھی کا یہ تفسیری اسلوب جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نو جوانوں میں دین اسلام کے انقلابی شعور پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں عصری علوم حاصل کرنے والے نوجوان مولانا سندھی کے اس اسلوب سے استفادہ کرتے ہوئے دین اسلام کی روشنی میں جدید دور کے مسائل حل کرنے کی سعی کر رہے ہیں ۔

علمائے دیوبند کا علوم کی اشاعت میں کردار

علمائے دیوبند کی علمی اور تصنیفی خدمات کیا ہیں ، اس کا جائزہ حضرت مولانا عبید اللہ سندھی نے اپنی کتاب “التمهيد لتعريف ائمة التجدید میں بڑی تفصیل کے ساتھ لیا ہے۔ چناں چہ دار العلوم دیو بند کے قیام کے پس منظر، علوم کی اشاعت کے لیے اس کے بنیادی اصول اور حضرت مولا نا محمد قاسم نانوتوی کے تجدیدی کردار کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں 

کہ 1857 کے بہت بڑے انقلاب کے بعد جب کہ ہندوستان کی حکومت سے مسلمان ذہنیت رکھنے والے تقریبا 300 ملین لوگ نکال دیے گئے اور ہندوستان کی سرکاری اور علمی زبان فارسی اور عربی سے تبدیل کر کے انگریزی بنا دی گئی۔ مسلمانوں کے زوال کے ایسے حالات میں سلطنت اسلامیہ کے زیر سایہ چلنے والے طریقہ ہائے تعلیم کے مطابق مسلمانوں کو دین کی تعلیم دینا کافی نہیں ہورہا تھا ۔

ایسے حالات میں مولانا محمد قاسم دیوبندی نے دینی کام کرنے کا جو طریقہ دریافت کیا، اُس کے بنیادی اصول درج ذیل ہیں ۔01۔  ولی اللہی طریقے کی اساس پر دینی فنون کی طرف دعوت دینا۔ ۔02۔  مسلمانوں کے تمام طبقات میں کتاب وسنت کی اشاعت کے لیے جدوجہد اور کوشش کرنا۔ ۔03۔  قابض اور مسلط حکومت سے تعاون لیے بغیر اپنا مال اور جان خرچ کرنا۔ ۔04۔  امام ولی اللہ دہلوی کے فلسفے میں تجدید کر کے ہندوستان میں دین کے غلبے کی تحریک کو نئے رخ پر ڈالنا۔ ۔05۔  فلسفہ ولی اللہی کے اصولوں میں انتہائی گہرا غور و خوض کر کے اُسے ہندوستان کے لوگوں کی ذہنیت کے قریب بنانا۔ ۔06۔  ماہرین فلسفہ کی طے کردہ مخصوص اصطلاحات کو چھوڑ کر عام ہندوستانیوں کی زبان میں بات کرنا۔ انتہائی مشکل اور نامساعد حالات میں ان اصولوں کے مطابق کام کرنا ایک آدمی کی جدو جہد اور کوشش سے نہیں ہو سکتا تھا، بلکہ اس کے لیے ایک بڑی جماعت اور بیت المال – کے قیام کی ضرورت تھی۔ اس کے لیے امام محمد قاسم نانوتوی نے بنیادی اساسی اصول متعین کیے ۔ نظام ترتیب دیا۔ اس طرح امام ولی اللہ دہلوی کی اتباع کرنے کے لیے جماعتوں کو ایک جگہ جمع کیا اور انھیں اس کام کے لیے اُبھارا۔ یہ ہے وہ جماعت ، جس کا نام ہم نےدیو بندی جماعت“ رکھاہے۔ شیخ الاسلام مولانامحمد قاسم دیوبندی نے اپنی اکثر کتا میں خالص اردو زبان میں لکھی ہیں۔ جن میں عام طور پر فارسی اور عربی زبان کے الفاظ استعمال نہیں کیے، حتی کہ بعض اوقات وہ الحمد والصلوةبھی اردو میں لکھتے ہیں۔ چناں چہ ہندوستان میں بسنے والے لوگ ان کی کتابوں میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد کسی اجنبی زبان کا کوئی کلمہ نہیں پاتے۔ ان کا طرز خطاب عام ولی الہی افراد سے قطعا مختلف ہوتا ہے۔ وہ اُن سے بھی اسی طرح مخاطب ہوتے ہیں، جیسا کہ وہ عیسائیوں اور ہندوؤں کے علما سے عمومی خطاب کرتے ہیں۔ اسی لیے اُن کے بیان کردہ بنیادی اور اساسی اصول باقی لوگوں کے انداز گفتگو اور تحریرات سے مختلف ہوتے ہیں۔

حضرت نانوتوی کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ ہر مسئلے کو بیان کرنے کے لیے پہلے اُس کے مقدمات ( اور تمہید ) بیان کرتے ہیں۔ پھر واضح دلائل کے ساتھ اس کے وجدانی امور کی نشان دہی کرتے ہیں۔

 ولی اللہی طریقے اور حضرت نانوتوی کے طریقے میں اسلوب اظہار کے  ان اختلافات کے باوجود جب آپ مولانا محمد قاسم نانوتوی  کی کتابتقریر دلپذیر سے دین کے بنیادی اُصول اخذ کریں ۔ اس کے بعد پھر حجة اللہ البالغہ کے باب حقيقة السعادة کا مطالعہ کریں تو ( اسلوب بیان کے علاوہ) معنی اور مفاہیم میں اُن کے درمیان کوئی اختلاف نہیں پائیں گے۔

اسی طرح جب آپ (حضرت نانوتوی کی کتاب ) ” آب حیات پڑھیں ، پھر امام ولی اللہ دہلوی نے جو کچھ فیوض الحرمین میں لکھا ہے ، اُسے پڑھیں : آپ عجیب چیز کا مشاہدہ کریں گے ۔ مثلاً امام ولی اللہ دہلوی کہتے ہیں کہ: انکشف لي كذا وكذا ( یہ یہ بات مجھ پر اس طرح منکشف ہوئی ہے ۔ ) اور مولانا محمد قاسم کہتے ہیں کہ : اس معاملے کے دلائل سے میرے نزدیک یہ یہ بات ثابت ہے ۔

آپ مولانا محمد قاسم نانوتوی کی کتاب “مصابيح التراویح کے 100 صفحات کے بقدر پڑھیں اور پھر حجۃ اللہ البالغہ میں امام شاہ ولی اللہ دہلوی نے اس سلسلے میں جو دو سطر یں لکھی ہیں ، انھیں دیکھیں تو آپ اس رسالے کو ان دو سطروں کی شرح پائیں گے۔

اسی طرح قاسم العلوم (مکتوبات حضرت نانوتوی ) میں ذبیحہ کی بحث پڑھیے اور پھر ( شاہ عبد العزیز دہلوی کی ) فتح العزیز میں اس بحث کو پڑھیے تو یوں معلوم ہو گا کہ یہ دونوں ایک ہی چراغ سے روشن ہونے والے الفاظ ہیں۔

ایسے ہی جب آپ ( حضرت نانوتوی کی کتابوں ) قاسم العلوم“ اور ”قبله نما “ میں تجلی کی بحث پڑھیں اور پھر آپ (حضرت شاہ محمد اسماعیل شہید  کی ) عبقات پڑھیں تو آپ دیکھیں گے کہ زیر بحث مسئلے میں دونوں حضرات ایک دوسرے سے مکمل موافقت رکھتے ہیں ۔

اس کے بعد مولانا عبید اللہ سندھی علمائے دیو بند کے علمی اور تحقیقی کام کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: دیو بندی جماعت کے اماموں نے درج ذیل کتب حدیث کی نشر و اشاعت کا کام پوری ذمہ داری سے کیا

۔01۔

 امام بخاری کی الجامع الصحیح کو حواشی اور تعلیقات کے ساتھ، شیخ احمد علی محدث سہارن پوری نے مرتب کر کے شائع کیا۔ اس کام میں ان کے ساتھ مولانا محمد قاسم دیو بندی شریک تھے ۔

۔02۔

 اسی طرح صحیح امام مسلم شرح نووی کے ساتھ طبع ہوئی 

۔03۔

 مؤطا امام مالک اور اس کی تعلیقات

۔04۔

 جامع ترمذی اور اس کی تعلیقات

۔05۔

سنن نسائی اور اس کی تعلیقات

۔06۔

 سنن ابن ماجه شاه عبد اپنی دہلوی کی تعلیقات کے ساتھ

۔07۔ 

سنن ابی داؤد ہمارے استاذ حضرت شیخ الہند ( مولا نا محمود حسن) کی تصحیح کےساتھ شائع ہوئی۔

۔08 ۔

مشكوة المصابیح اور اس کی تعلیقات

۔09۔

 تفسیر بیضاوی اور اس کی تعلیقات

۔10 ۔

 احیاے علوم الدین اور مجمع البحار “ مولانا محمد یعقوب دیو بندی کی تصحیح کے ساتھ

۔11 ۔

تقریب التهذیب اور “المغنیمولانا احد علی محدث سہارن پوری کی تصحیح کے ساتھ

۔12 ۔

 حجة الله البالغه اور إزالة الخفا عن خلافة الخلفاء مولانا محمد احسن نانوتوی کی تصحیح کے ساتھ

۔13 ۔

محمد قاسم فرشتہ کی تاریخ فرشتہ مولانا محمد یعقوب دیو بندی کی تصحیح کے ساتھ شائع ہوئیں۔

ہندوستان کے اطراف کے بہت سے اہل علم نے ان حضرات کی اتباع کی ۔

مولانا عبیداللہ سندھی علوم کے تراجم اور شروحات کے حوالے سے علمائے دیو بند کے کردار کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں

دیوبندی جماعت کے اماموں نے اردو زبان میں کافی کتابوں کے ترجمے اور شروحات لکھیں۔

۔01۔

 شیخ قطب الدین دہلوی نے مشکوة کی شرح (إظهار الحق ) لکھی۔ اس میں مشكوة” کا ترجمہ صدر الحمید مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی کا ہے۔

۔02۔

مولا نا خرم علی ( بلہوری ) نے “مشارق الأنوار کی شرح لکھی۔

۔03۔

 در المختار کی شرح مولا نا محمد احسن نانوتوی نے لکھی۔

۔04۔

انھوں نے احیاء العلوم اور کیمیائے سعادت کا ترجمہ بھی کیا۔

۔05۔

 مولانا محمد یعقوب دیوبندی نے ”منهاج العابدین“ کا ترجمہ کیا۔

۔06۔

القول الجميل “ کا ترجمہ شیخ خرم علی بلہوری نے کیا۔

پس اس سلسلے میں بھی لوگوں نے ان حضرات کی اتباع کی ۔ اب تک دین کے فنون میں سے کوئی فن ایسا نہیں اور اماموں کی کتابوں میں سے کوئی کتاب ایسی نہیں ، جس کا اردو زبان میں ترجمہ نہ ہو چکا ہو۔“ مولانا عبید اللہ سندھی نے اپنی کتاب التمهيد لتعريف ائمة التجديد میں علمائے دیوبند کی تصنیفی

خدمات اور اردو تراجم اور ان کی اشاعتی اہمیت واضح کی ہے۔ اور علمائے دیوبند کی اس جدو جہد کا مکمل تعارف بہترین عربی اسلوب میں عالم عرب کے سامنے رکھا ہے۔ یہ کتاب پہلے 1396 /1976ء میں طبع ہوئی تھی۔ راقم سطور نے اس کا ایک حصہ الموقف في الفقه الإسلامی تحقیق وتخریج کے ساتھ 2015ء میں لاہور سے شائع کیا ہے۔ اس کے باقی حصے بھی زیر تحقیق ہیں اور جلد ہی اشاعت پذیر ہوں گے ۔ اسی طرح اس کتاب کا پہلا حصہ مولانا سندھی کی خود نوشت سوانحتحديث العبد الضعيف بنعمة ربه اللطيف کے عنوان سے ہے۔ راقم سطور نے اس کا اردو ترجمہ “سرگزشت حیات“ کے عنوان سے مرتب کر کے شائع کیا ہے۔ دوسرا حصہ سبيل الرشاد اور  الموقف في الحديث النبوی کے اردو تراجم مجلہ شعور و آگہی لاہور میں بالاقساط میں شائع ہو چکے ہیں۔ انھیں بھی کتابی صورت میں عنقریب شائع کیا جائے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ مولانا عبید اللہ سندھی فضلائے دارالعلوم دیو بند میں ایک یگانہ روزگار ہمہ جہتی شخصیت تھے۔ انھوں نے اپنے استاذ حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن کی اتباع میں ولی اللهی علوم کے فروغ اور ہندوستان میں مسلمانوں کے قومی مسائل حل کرنے کے لیے انقلابی افکار پیش کیے۔ 1857ء کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کے خاتمے اور بین الاقوامی سطح پر جنگ عظیم اوّل میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مسلمان انتہائی زوال کی حالت میں مبتلا ہو چکے تھے۔ سامراجی غلبے نے قومی اور بین الاقوامی نظام پر قبضہ کر لیا۔ چناں چہ قومیتوں کی بنیاد پر ریاستوں کی تشکیل کا جمہوری نظام دنیا بھر میں غالب آگیا۔ حتی کہ عربوں نے بھی ترکوں سے منہ موڑ کر قومی ریاستی نظام اپنا لیا۔ دنیا بھر میں یورپ کے مادیت پرست فلسفوں کو قبول کیا جانے لگا۔ ایسے پُرفتن ماحول میں مولانا عبید اللہ سندھی نے مادی فلسفے کے مقابلے پر امام شاہ ولی اللہ دہلوی کے بیان کردہ دینی فلسفے کو سمجھنے سمجھانے کا طریقہ اختیار کیا۔ انھوں نے قومی جمہوری دور کے معروضی سیاسی تقاضوں کے تناظر میں مسلمانوں کی بقا کے لیے نئی سیاسی حکمت عملی واضح کی۔ اس طرح انقلاب انگیز حالات میں دینی شعور کی اساس پر انقلابی جدو جہد پر مشتمل افکار کا آوازہ بلند کیا۔ چناں چہ مولانا سندھی نے تاریخ، سیاست ، اور فلسفے جیسے اہم ترین موضوعات پر اپنے افکار عالیہ پیش کیے۔ مسلمانوں کے غور و فکر کے لیے فلسفیانہ تجزیے اور تجاویز کے طور پر سیاسی آرا پیش کیں، جن پر غور و فکر کیا جانا ضروری ہے۔

مولانا سندھی کے ان افکار کی قدر و قیمت قومی سوچ رکھنے والے علمائے ربانیین اور بزرگانِ دین نے سمجھی۔ چناں چہ حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری نے بعض نکتہ چین حضرات کے جواب میں حضرت سندھی کا دفاع کرتے ہوئے ایک مجلس میں ارشاد فرمایا کہ

حضرت شیخ الہند ( مولانا محمود حسن ) جس کی تعریف کریں ہمیں تو ان کے متعلق نیک گمان ہی رکھتا ہوں ۔ حضرت شیخ الہند کی سمجھ اور علم بہت گہرا تھا ۔ حضرت ( مولانا سید حسین احمد ) مدنی بے شک بڑے بزرگ ہیں، مگر جو بات حضرت شیخ الہند میں تھی ، وہ بہت گہری تھی ۔ لہذا مولانا عبید اللہ (سندھی) کے متعلق حضرت شیخ الہند کے اقوال کو سامنے رکھتے ہوئے میں تو مولوی عبید اللہ صاحب (سندھی) کو ایسا نہیں سمجھتا جیسا عام نکتہ چین یا بعض حضرات فرماتے ہیں ۔“

حقیقت یہ ہے کہ مولانا عبید اللہ سندھی حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن کی جماعت کے ایک اہم فرد تھے۔ ان کے علوم و افکار کو جماعت شیخ الہند کے تناظر میں ہی سمجھنا سمجھانا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان بزرگوں کی اتباع نصیب فرمائے ۔ آمین