MIANA LIBRARY LOGO
ایرانی فکر کے قدیم مآخذ( سعید نفیسی کے خیالات کا مطالعہ)

ایرانی فکر کے قدیم مآخذ از ڈاکٹر کبیر احمد جائسی ( علیگ)

in ALL, BLOG, کالمز on October 5, 2024

ایرانی فکر کے قدیم مآخذ
( سعید نفیسی کے خیالات کا مطالعہ)
ڈاکٹر کبیر احمد جائسی ( علیگ)

 

  

ایرانی فکر کے قدیم مآخذ از ڈاکٹر کبیر احمد جائسی ( علیگ)

ایران کے حالیہ اسلامی انقلاب سے پچاس ساٹھ سال قبل کا زمانه ایرانی مفاخر پرستی کا زمانہ تھا۔ رضا شاہ پہلوی کے عہد میں یہ لے تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔ ایرانی زندگی کے ہر مظہر کو قدیم بلکہ اساطیری ایران کے نقطہ نظر اور روایات و حکایات کے ذریعہ جانچا پر کھا جانے لگا اور ہر چیز کی توضیح، تفسیر اور تاویل قدیم آریائی روایات کے پس منظر میں کی جانے لگی ۔ اساطیر پرستی کے اس سیلاب سے ایران کا مذہب بھی محفوظ نہ رہ سکا۔ ایرانیوں بالخصوص پہلوی عہد حکومت کے ایرانیوں نے اپنے مذہب کی جو توضیح و تشریح کی ہے اگر اس کا ترجمہ اردو زبان میں کر دیا جائے تو ہندوستان کے وہ حضرات جو اسی مذہب کے پیرو ہیں شاید ہی ایرانیوں کی توضیح تشریح اور تعبیر سے متفق ہو سکیں۔ ابراہیم پور داؤد، کاظم زاده ایران شہر، محمد معین اور سعید نفیسی سب کی مشترکہ کوشش یہ رہی ہے کہ ایران کے مذہب، سماج ، سیاست ، تہذیب، تمدن اور ادب ہر چیز کو ایک جدا گانہ نوعیت کا حامل قرار دے کر ان کو نہ صرف خالص ایرانی ثابت کیا جائے بلکہ ان کا سلسلہ زردشتی عقاید و اعمال سے ملا دیا جائے ۔ ان حضرات کی ان کوششوں نے ایران کے مذہب کو ایک نئے انداز سے پیش کیا اور یہ لوگ بلا جھجک اس بات کا اعلان کرنے لگے کہ ان کا مذہب خالص ایرانی چیز ہے جس کی زیریں لہروں میں زردشتیت کی روح کار فرما ہے ۔ ان حضرات کی ساری علمی اور ادبی کاوشیں ان کے اسی نقطہ نظر کی ترجمان ہیں۔

سعید نفیسی کی کتاب سر چشمہ تصوف در ایران بھی اسی طرح کی ایک کوشش ہے مگر اس کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ سعید نفیسی نے ایران کے تصوف کا سلسلہ زردشتی عقاید سے ملانے کے بجائے بودھ مت کے عقاید سے ملایا ہے اور اس بات کے مطالعے کی کوشش کی ہے کہ بودھی تعلیمات نے ایران کے تمدن پر 

 اپنے کیا کیا اثرات چھوڑے ہیں۔ علاوہ برائیں انھوں نے ایران کے تصوف پر فلسفیانہ نظر ڈال کراپنی راہ کو دوسروں کی راہ سے ممتاز و متمائز کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انھوں نے اپنے مختصر سے دیباچے کا خاتمہ ان الفاظ پر کیا ہے :

مقصود من از این کتاب این است که این گونه مطالب تازه را که دیگران بدانها توجه نه کرده اند طرح کنم وراه را برای کسانی که باید دنبال کار را بگیرند بگشایم امید دارم دانش مندان جوانی که در زمینه این گونه بررسی های دور از تعصب امید من تنها با ایشان است کاری را که متاسفانه من ناتمام گذاشته ام به پایان برسانند

اس کتاب کو لکھنے) سے میرا مقصد یہ ہے کہ جن تازہ افکار کی طرف دوسروں نے توجہ نہیں کی ہے میں ان کی بنیاد ڈالوں اور ان لوگوں کے لیے جو اس کام کو آگے بڑھائیں گے راہ ہموار کروں میں امید کرتا ہوں کہ وہ نوجوان دانش ور جو تصب سے مبرا ہو کر اس کام کو کریں گے میرے کام کو جس کو افسوس ہے کہ مینا تمام چھوڑ رہا ہوں ، پایہ تکمیل تک پہونچائیں گے۔)

اس کتاب کا پہلا باب اس بات سے بحث کرتا ہے کہ زمانہ ما قبل اسلام کے ایرانی تمدن پر بودھی تعلیمات کا کیا اثر پڑا ہے ؟ انھوں نے آغاز کلام کے طور پر اس تاریخی حقیقت کو یاد دلایا ہے کہ قدیم ایران کے ہخامنشی خاندان کا مذہب ، ظہور اسلام سے قبل کے ساسانیوں کے مذہب سے بالکل مختلف اور جداً اگانہ نوعیت کا تھا تھا لیکن غلطی سے بہت سے ایرانی علماء ان دونوں خاندانوں کے حکمرانوں کو ایک ہی مذہب کا پیرو سمجتے رہے ہیں رسوم نفیسی کے خیال میں ساسانیوں کے زمانے کا زردشتی مذہب ہر لحاظ سے ثنویت کا حال تھا۔ یہاں تک کہ ان کا تصورالہ بھی نویت زدہ تھا۔ اہورا مزدا ، ان کا خدائے خیر تھا اور ا ہر من خد مائے شیر ہنجا منشیوں ۔ کے جو کیسے اب تک تک کشف ہوئے۔ ہی ان کی بنیاد پر جب ان کے دینی قاید کو تین کیا جاتا ہے تو علم ہوتا ہےکہ ان کے ہاں انہیں کا کوئی تصور ہی نہ تھا اور اہور امزدا کی جگہ پر قہ قدیم خداؤں مثلاً اناہتیہ نامید ) اور میترہ (مہر) – اس فرق و اختلاف کی وجہ سے سعید نفی یہ تجوز یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ زردشتی مذہب نے ہخامنشیوں کے زمانے میں ارتقاء و تکامل کی اس راہ کو طے نہیں کیا تھا جو اس نے ساسانیوں کے زمانے میں کیا ۔ اسی سلسلہ سخن میں انھوں نے ایک روسی مستشرق یا کو بوسکی کا بھی حوالہ دیا ہے جن کی تحقیقاتی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وسط ایشیا اور خوارزم میں جو زردشتی مذہب را بجے تھا وہ دیگر علاقوں کے زردشتی مذہب سے مختلف تھا اس سلسلے میں انھوں نے کافرستان کے لوگوں کا بطور خاص تذکرہ کیا ہے جن کے یہاں آج بھی اپنے آبا و اجداد کی پرستش لکڑی کے مجسموں کے ذریعہ رائج ہے۔ ان تمام باتوں سے سعید نفیسی نے دو نکتے اخذ کئے ہیں جو یہ ہیں۔

نخست آنکه دین زردشت برخلاف آنچه قرن ها در آن اصرار ورزیده انداز شمال شرقی ایران قدیم یعنی از همین نواحی پامیر و آسیای مرکزی و خوارزم بدین نواحی دیگر آمده و مهد آن شمال غربی ایران یعنی کشور ماد و آذرباینجان نه بوده است. زیرا که هنوز قدیم ترین آثار آن درین نواحی دیده میشود و آنچه در باستان شناسی در شمال غربی بدست می آید بالعکس مراحل اخیر و یادگار های دوره تحول و تکامل این دین را  نشان میدهد و اگهی زبان اوستا که زبان این دین است بزبانهای این ناحیه شمال شرقی بهتری خورد تا بزبان ناحیه شمال غربی و گاهی زبان اوستا بزبان پشتو یا پختو از زبانهای امروزی افغانستان بسیار شبیه است . نکته دوم این است که دین بر شدت بهمان صورتی که در دوره هخامنشی آشکار است و در باستان شناسی آسیای مرکزی و خوارزم بدست آمده و باز مانده آن در میان کا فر با باقی ست ، نخست در ایران انتشار یافته و در دوره فترتی که در میان هخامنشیان و ساسانیان پیش آمده و متاسفانه ازین دوره اسنادی بدست نیست این دین را مغان که از طوایف پارس بوده اند بخود اختصاص داده و حتی اجز و امتیاز طبقاتی خود کرده اند و در آن تصرف کرده و بدعت گذاشته و آنرا بصورتی که در دوره ساسانی دیده میشود در آورده اند به همین جهت هم بست که در سراسر دوره ساسانی مقامات روحانی منحصر به منغ و مغ زادگان بوده و مانند یهود که روحانیت را مخصوص اولاد بارون یعنی نژاد و خاندان متعین کردہ اند ایشان هم رمبانیت را به خود اختصاص داده اند ( ص ص ہے – ۸) اول تو یہ کہ اس بات کے بر خلاف جس پر صدیوں سے زور دیا جاتا رہا ہے، زردشتی مذہب قدیم ایران کے شمال مشرقی حصے سے یعنی پامیر ایشیائے وسطی اور خوارزم سے دوسرے علاقوں میں آیا اسکا گہوارہ شمال مغربی ایران یعنی سرزمین آل ماد اور آذربائجان نہیں تھا کیوں کہ

اس زمانے میں بھی اس دور کے جو قدیم ترین آثار ملتے ہیں اور شمال مغربی ایران کے مطالعہ آثار قدیمہ سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ اس مذہب کے ارتقاء و تکامل اور آخری مراحل کے بالکل برعکس ہیں۔ علاوہ برای اوستائی زبان جو کہ اس مذہب کی دینی زبان سے شمال مغربی ایران کی زبان کے مقابلے میں شمال مشرقی ایران کی زبان سے زیادہ ملتی جلتی ہے کبھی کبھی اوستائی زبان آج کے افغانستان کی زبان پشتو یا پختو سے بہت مماثل معلوم ہوتی ہے ۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جس طرح زردشتی مذہب نجا منشیوں کے دور میں دکھائی دیتا ہے اور ایشیائے وسطی اور خوارزم کے آثار قدیمہ کے مطالعہ کے بعد جس صورت میں ملتا ہے اور کافروں کی بازمانده نسل میں موجود ہے اس نے اول اول ایران میں رواج پایا۔ نجا منشیوں اور ساسانیوں کے درمیانی زمانے میں ، جس کی اسناد افسوس ہے کہ ہماری دسترس میں نہیں ہیں، اس مذہب کو مغوں نے جو کہ پارس کے رہنے والے قبائل میں سے ایک قبیلہ کے لوگ تھے اپنے لیے مخصوص کر لیا د انھوں نے صرف یہی نہیں کیا بلکہ) اس (دین کو اپنے طبقاتی امتیاز کا ایک جزو بنا لیا ۔ انھوں نے اس دین میں تصرف بھی کیا اور نئی نئی باتیں بھی داخل کیں اور اس کی وہ صورت ہوگئی جو ساسانی عہد کے زردشتی مذہب کی صورت تھی ، یہی وجہ ہے کہ پورے ساسانی دور میں روحانی مراتب مغوں اور منع زادوں کے لیے مخصوص رہے ہیں جس طرح یہود اس بات کے قائل ہیں کہ روحانیت آل ہارون کا مخصوص حصہ ہے اور انھوں نے روحانیت کو ایک خاندان اور نسل کے لیے مخصوص کر دیا ہے (اسی طرح مغوں نے بھی کیا)ان مغوں نے رہبانیت کو بھی اپنا خاص وطیرہ بنایا ) 

اس کے بعد سعید نفیسی نے زردشت کے زمانے سے بحث کی ہے ان کا خیال ہے کہ اس سلسلے میں ں تعصب کی کار فرمائی کی وجہ سے بہت افراط و تفریط ہوئی ہے جو لوگ ایرانی تعصب کے حامل ہیں انھوں نے یونانی کتابوں کی مدد سے زردشت کا زمانہ آج سے تقریباً آٹھ ہزار پا نچ سوسال پہلے کا زمانہ قرار دیا ہے ۔ وہ مستشرقین جو اسرائیلی تعصب کے حامل ہیں انھوں نے زردشت کا زمانہ ۳۵۰ ق م مقرر کیا ہے تا کہ اس افسانے کی تصدیق ہو سکے کہ زردشت، دانیال پیغمبر کےشاگر د تھے اور اس کے ذریعہ وہ یہ ثابت کر سکیں کہ زردشتی مذہب میں یہودی   مذہب کے بہت سے اجزا شامل کر لیے گئے ہیں خود زردشتی مذہب کی موجودہ کتابوں میں ان کا زمانہ ۵۸۸ قم درج ہے ۔ سعید نفیسی کو ان تمام زمانوں سے اختلاف ہے ۔ ان کے نزدیک زردشت کا صحیح عہد حیات آٹھویں صدی ق م کے آغاز سے معا پہلے ہے ۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے اس خیال پر پھر زور دیا ہے کہ زردشت کا تعلق شمال مشرق ایران کے اس حصے سے تھا جو مہندوستان کا ہمسایہ علاقہ ہے ۔ اسی سلسلہ سخن میں انھوں نے اس بات سے بحث کی ہے کہ آریوں کا مرکز اصلی کہاں واقع تھا؟ جیسا کہ معلوم ہے کہ اس سلسلے میں مورخین میں بڑا اختلاف ہے۔ سعید نفیسی نے ان اختلافات کا ذکر کرنے کے بعد اپنے شخصی مطالعے کی روشنی میں پامیرہ کو آریوں کا مرکز اصلی قرار دیا ہے اس سلسلے میں وہ اپنی کتاب تاریخ اجتماعی ایران در دوره پیش از تاریخ و آغاز تاریخ میں خاصی مفصل بحث کر چکے ہیں ۔ امیر کو آریوں کا مرکز اصلی قرار دینے کی وجہ سے انھوں نے یہ نتیجہ برآمد کیا ہے کہ مہندوستان اور ایران کے آریہ ایک ہی نسل اور مقام کے لوگ ہیں اور اپنے مرکز اصلی سے نقل مکانی سے پہلے ایک جگہ پر ایک ساتھ زندگی بسر کرتے تھے اپنے اس خیال کی تصدیق کے لیے وه رگ وید اور اوستا کی داستانوں کی مماثلت کا ذکر کرتے ہیں اور ان قصوں کہانیوں کو یاد دلاتے ہیں جو ایرانیوں اور مہندوستانیوں میں مشترک ہیں اسی کے ساتھ ساتھ وہ دونوں ملکوں کے مذاہب کی یکسانیت کی طرف بھی اشارے کرتے ہیں اس طول کلامی کے بعد وہ اپنے اصل مقصد کی طرف مراجعت کرتے ہوئے لفظ بودھ کی تشریح کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہر مذہب میں ایک موعود کا تصور موجود ہے مثال کے طور پر زردشتوں میں سوشیانس موعود، یہودیوں میں مسیح موعود، عیسائیوں میں فارغلیت (فارقلیط) مسلمانوں میں مہدی موعود کا وہ خاص طور سے ذکر کرتے ہیں ان کے نزدیک مہندوستان میں متعدد بودھ گذرے ہیں جن میں سے آخری کا نام سدھارتھ تھا ، ان کا تعلق گوتم خاندان سے تھا اس لیے وہ گوتم بودھ کہلائے ۔ سعید نفیسی کے نزدیک گوتم بدھ کے زمانے کے بارے میں جو آخری تحقیقات ہوئی ہیں ان کی رو سے ان کا زمانہ ۵۶۰ سے لے کر ۴۸ ق م تک کا زمانہ قرار دیا گیا ہے۔ اسی سلسلۂ سخن میں وہ ایک قدیم ایرانی داستان بود است و بورات کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ اس داستان کا تعلق گو تم بودھ سے ہے۔ یہ داستان ساسانیوں کے زمانے میں پہلوی سے آرامی یا سریانی زبان میں ترجمہ ہوئی اور پھر اس ترجمے کو ماست رکھ کر عربی زبان میں اس کا ترجمہ کیا گیا۔ اس ترجمہ در ترجمہ میں بود اسف کا نام یو داسف ہوگیا اور یورپی زبانوں نے اسی نام کو اختیار کیا ۔ ان کا خیال ہے کہ یورپی زبانوں کی مشہور داستان

– Tosd phatet Barlaam   اسی  داستان سے ماخوذ ہے۔ جیسا کہ پہلے کھا جا چکا ہے سعید نفیسی کیے خیال کے مطابق اصل نظم گو تم بودھ سے متعلق ہے جس میں ان کے احوال و کوائف اور ان واقعا ود کو نظم کیاگیا ہے وگوتم بود وہیں ان میں اہل یورپ مذکورہ نظم کی مدرسے میانیت ہیں تورب کی حقانیت کو ثابت کرتے رہے اور ظہور اسلام کے بعد کے ایران میں بھی اس نظم سے اسی طرح – کے نتائج برآمد کیے گئے اور اس نظم کی مدد سے اسلام کی حقانیت کا ڈنکا بجایا گیا۔ اس سلسے میں کی حقانیت کا انھوں نے ابن سینا ابن طفیل اور شیخ اشراق شہاب الدین سہروردی مقتول اب الدین سہروردی مقتول کی کتابوں کی بین ایقان کو اسی داستان کا چربہ بتایا ہے ۔ اس نا نظم کافان کا فارسی زبان میں جو ترجمہ ہوا ۔ را ہے اس کا نا اس کا نام سلامان و ابسال ہے جو متعدد بار شائع بھی ہوچکی ہے۔ سعید نفیسی نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ اسلام کے ابتدائی ادوار میں عربی اور فارسی میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں اُن میں بودھ کا بودھ کا نام دو طرح سے درج ہے کہیں پر بودہ کہیں پر بو دست وسف اور ان کے پیروں کو ہدیہ بود سفیہ کہا یہ کہا گیا ہے ۔ انھوں نے یہ بھی بتلایا ہے کہ جغرافیہ کی قدیم کتابوں میں اس سرزمین کو جہاں بودھ کے پیرو رہتے تھے، بدھ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔ ان تمام باتوں ۔ توں سے انھو ، انھوں نے یہ نتیجہ نکا نتیجہ نکالا ہے کہ ہے کہ ایران کے لوگ ساسانیوں اور ظہور اسلام کے بعد کے دور میں گوتم بدھ سے بخوبی واقف تھے۔ ان کا خیال ہے کہ چونکہ زردشت کا عہد حیات آٹھویں صدی ق م اور آخری بودھ گوتم کا زمان حیات چھٹی صدی ق م ہے اس ۔ لیے پہلے بودھوں کے جو عقاید تھے ار ان کا اثر ساتویں صدی ق م میں زردشتی عقاید پر پڑا ہوگا۔ سعید نفیسی کا خیال ہے کہ یہ آخری بو دور بر ہائی ندیر کی مذہب کی اصلاح اور اس کی اپنی اصل کی طرف مراجعت کے لیے مبعوث ہوئے تھے انھوں نے کوئی نیا دین پیش نہیں کیا ہے اس لیے مہندووں اور بودھوں میں ہمیشہ صلح و صفا کے جذبات کار فرما رہے اور دونوں فرقے اطمینان سےو سکون کے ساتھ شانہ بہ شانہ زندگی کبر کرتے رہے ۔ اسی سلسلہ سخن میں انھوں نے رگ وید اور اوستا کی ماثلتوں کا ایک بار پھر ذکر کر کے ان ناموروں کے نام گنائے ہیں جو دونوں کتابوں میں مشترک ہیں ۔ اسی طرح  انھوں نےاس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ فاری زبان میں جس گھاس کا نام ہومیہ ہے اور جس کار سن دشتوں کے یہاں عبادت کے وقت استعمال کیا جاتا ہے مہندووں میں بھی وہ متبرک ہے اور اس کو مقدس اور بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس لفظ کا حرف ہ اس سے بدل گیا ہے اور اس کا مہندوستانی نام سومہ ہو گیا ہے۔ پھر انھوں نے ہندو اور زردشتی مذاہب کے عبادت خانوں کا بھی ذکر کیا ہے اور دونوں کی صفائی ستھرائی، تحمل اور پاکیزگی کو ایک دوسرے کا مثل ٹھہرایا ہے اور ان میں پا بر مبنہ داخل ہونے کی طرف خصوصیت سے اشارہ کیا ہے علاوہ بر این حس لحن اور انداز سے رگ وید کے اشلوک پڑھے جاتے ہیں بعینہ اسی انداز سے باری حضرات اوستا پڑھتے ہیں ۔ زردشتی حضرات اپنی کمر کے ہیں۔ اپنی کمر کے گرد جھوٹی باندھتے ہیں اور جس کا اصطلاحی نام کسی ہے اس کو سعید نفیسی مہندو حضرات کے اُس دھاگے کے ماثل قرار دیتے ہیں جو یہ لوگ بلوغت کے بعد تاحیات کمر پر باندھتے ہیں اوستا کے دو حصوں یعنی گات با” اور یشت ہا میں جو منظوم دعائیں ہیں وہ ویدوں کی منظوم دعاؤں سےبہت ملتی جلتی ہیں ان مماثلتوں کا ذکر کرنے کے بعد انھوں نے اپنے قارئین کو ایک باریک نکتہ ” سے روشناس کرایا ہے وہ نکتہ یہ ہے کہ فروردین بیشت“ میں ایک لفظ گو تمہ ملتا ہے اس گئو تمہ کو اوستا میں زردشت کا کو حریف و مقابل کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے چونکہ سنسکرت کا لفظ کو تم اس لفظ کا ہم شبیہ ہے اس لیے بعض یورپی مستشرقین نے یہ غلط فہی پھیلانے کی کوشش کی ہے کہ اس پیشنت میں گوشتم بودھ اور زردشت کے مناظرے کی عکاسی کی گئی ہے۔ سعید نفیسی نے اپنی تحریر میں اس خیال کا مضحکہ اڑایا ہے اور اس لفظ کو اسم خاص قرار دینے کے بجائے اسم عام قرار دیا ہے پھر انھوں نے بودھ مذہب کے پیرووں کی صلح جوئی سے اس کا سلسلہ ملایا ہے اور بودھی عقاید کو ایرانی

عقاید کے سرچشموں میں سے ایک سرچشمہ قرار دیا ہے۔ سعید نفیسی نے اس تاریخی حقیقت کی طرف بھی اشارہ شار ہے ارہ کیا ہے کہ مہندوستان کے باہر

نے کے لوگوں نے سب سے پہلے بودھ مذہب کو اپنے کو اپنایا وہ مو موجودہ افغانستان کا علاقہ جس علاقے کے لو ہے ۔ انھوں نے ایک کتیبہ کا حوالہ کاحوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ۲۵۶ ق م میں افغانستان میں یہ مذہب رائج ہو چکا تھا اس کے علاوہ ایسی ایسی شہادتیں بھی کی ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے ہے کہ اسلامی عہد کے میں یہ مذہب ماورا را ماوراء النهر خاص کر سمر قند اور بخارا میں رائج تھا۔ ظہور اسلام سے ہے سمرقند دربار سلام سے: کے آغاز تھا۔ ے پہلے ایرانیوں اور اودھ مذہب کے پیرووں میں جو قریبی روابط تھے سعید نفیسی ۔ بی نے ان کی مزید تفصیل پیش کی ہےمثلاً انھوں نے لکھا ہے کہ 44 ق م میں بودھ مذہب کی تبلیغ کے لیے جو پائے کے لیے جو پانچ افراد چین گئے 

تھے ان میں سے چار ایرانی تھے جن میں اشکانی خاندانی کا ولی عہد بھی شامل تھا اس باب کا سب سے اہم نکتہ بلکہ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ سعید نفیسی نے بلخ کی مشہور عبادت گاہ نوبیا کو آتش کدہ نہیں بلکہ بودھی معبد قرار دیا ہے اور فن تعمیرات کے تمام نکات پر نظر رکھتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ عمارت آتش کدہ نہیں ہو سکتی جیسا کہ آج تک سمجھا جاتا رہا ہے۔ کیونکہ اس کی تعمیر آتشکدہ کے انداز کی نہیں ہے۔ سعید نفی کا یہ نکتہ اتنا اہم ہے کہ اس پر مزید تحقیق ہونی

چاہیے اور ان کے اس خیال کی توثیق یا تردید ہو جانی چاہئیے۔

بام اپنے اس مطالعے میں سعید نفیسی نے خاص طور سے ان بودھوں کا ذکر کیا ہے جو افغانستان کے شہر بامیان میں بستے تھے اُس زمانے میں بودھوں کا مسکن ہونے کی وجہ سے یہ شہر بلخ کے

 

مقابلے میں زیادہ مشہور تھا۔ بامیان میں محفوظ بودھوں کے تمام آثار سے بحث کرنے کے بعد انھوں نے ایک ایرانی مذہب کے بانی و پشتیوانانی (۲۱۵ – مقتول ۶۲۷۵) کا ذکر کرتے ہوتے بتلایا ہے که مانی اگر ایک طرف اپنے آپ کو زردشتی مذہب کا سوشیانس موعود اور مسیحی مذہب کا فارقلیط موعود کہتا تھا تو دوسری طرف بودھ مذہب کا موعود ہونے کا بھی مدعی تھا۔ ایران کی قدیم داستانوں کے مطابق مانی، نقاشی کو اپنا معجزہ قرار دیا دیتا تھا اسی لیے لوگوں نے اس کو نقاش کے نام سے موسوم کیا ہے اور ایک مصور کتاب کو اس سے منسوب کیا ہے جس کو قدیم متون میں تین ناموں ارتنگ ، ارژنگ یا ار تنگ سے یاد کیا جاتا ہے۔ سعید نفیسی کی تحقیق یہ ہے کہ سن کیا نگ اور وسط ایشیا میں ارتنگ مانی کے جو چند مصور صفحات ملے ہیں ان کی نقاشی اُس نقاشی کی ہم شبیہ ہے جو بامیان کے بودھوں کے عبادت خانوں میں ملتی ہے۔ ارتنگ مانی کی تصویروں میں رنگوں کا جوملاپ انسانی چہرہ بشرہ اور

لباس ملتا ہے وہی رنگ ویسا ہی لباس ویسے ہی انسانی چہرے بامیان کے معبدوں کی نقاشی میں بھی موجود میں اس وجہ سے سعید نفیسی اس بات کے قائل ہیں کہ مانوی مذہب پر بودھ مذہب کا

گہرا اثر پڑا ہے اس سلسلے میں ان کا یہ بیان خاص طور سے نقل کرنے کے قابل ہے ۔ تاثیرات تعلیمات بودانی در فرهنگ ایران تا مدتی پس از دوره ساسانی باقی بوده

است زیرا که ایرانیان افکار دوره پیش از اسلام را بگی ربا نکرده اند و حتی پلطائف الحیل و زبر دستی خاصی آنرا در معتقدات دوره اسلامی خودنگاه داشته اندر جائے

که بیش از همه این نکته دقیق روشن است در آنجاییست که تا زیان آنرا نهضت

شعوبیه اصلاح کرده اند (ص ۳۳)

( ساسانی عہد کے خاتمے کے ایک عرصے بعد تک ایران پر بودھی تعلیمات کا اثر باقی رہا ہے کیونکہ ایرانیوں نے ظہور اسلام سے قبل کے اپنے افکار کو کلیتا ترک نہیں کیا ہے بلکہ انھوں نے حیلوں اور چالاکیوں سے اسلامی عہد میں بھی اپنے قدیم عقاید کی نگہداشت کی ہے یہ دقیق نکتہ جس جگہ سب سے زیادہ واضح ہو کر سامنے آتا ہے وہ ایرانیوں کی وہ تحریک ہے جس کو عربوں نے شعوبی تحریک کا نام دیا ہے۔

 

ایرانی تصوف

شعوبی تحریک کے سلسلے میں ایرانی مورفین یہ بتلاتے رہے ہیں کہ یہ ایرانی قوم پرستوں کی تحریک تھی جس کی ابتدا اس لیے ہوئی تھی کہ عرب اپنی قبائلی عصبیت کی وجہ سے غیر عرب قوموں کو مولی” کے نام سے موسوم کرنے لگے تھے۔ جیسے جیسے عربوں کا تفاخر کی بڑھتا گیا اور اس کے نتیجہ میں میں وہ اپنے زیر دستوں پر زو روز یادتی کرتے گئے ویسے ویسے شعوبی تحریک پر وان چڑھتی رہی۔ سعید نفیسی نے اس تحریک سے جو نتائج برآمد ہو گئے ہیں وہ دوسرے مورخین کے نتائج سے نہ صرف یہ کہ بالکل الگ ہیں بلکہ خاصے چونکا دینے والے بھی ہیں۔ ان کے اصل الفاظ یہ ہیں :

تقریبا همه شعوبیه ایرانی بوده اند واگر در جاهای دیگر بیرون از ایران هم پیدا شده اند موسس آن اندیشه و رهنمای آن گروه ایرانیان بوده اند چنانکه نیرومند ترین آنها که در میان تا زیان پیدا شده اندینی اصحاب صاحب الزینج پیروان علی بن محمد از مردم ری و قرمطیان یا قرامطه پیشوایان شان از ایران برخاسته اند. مهم ترین نهضت شعوبیه آن نهفتیست که به تصوف ایران منتهی شده (ص ۳۳) تقریباً تمام شعوبی ایرانی رہے ہیں اور اگر ایران کے باہر دوسری جگہوں پر بھی کچھ شعوبی پیدا ہوئے ہیں تب بھی اس فکر کی بنیاد ڈالنے والے اور اس گروہ کے رہنما ایرانی تھے۔ عربوں میں جو سب سے زیادہ فعال اور طاقتور شعوبی پیدا ہوئے ہیں وہ اصحاب صاحب الزنج تھے جن کا ر ہمارے کا رہنے والا ایک شخص علی بن محمد تھا۔ یہی حال قرامطہ کا بھی ہے قرامطہ کا بھی رہنما ایرانی ہی تھا۔ اہم ترین شعوبی تحریک وہ ہے جو ایرانی تصوف کی شکل میں ظاہر ہوئی )

سعید نفیسی سے پہلے کسی بھی ایرانی محق یا مورخ نے ایرانی تصوف کی ابتدا کو شعوبی تحریک کا نتیجہ نہیں بلایا ہے بلکہ ایران کے تصوف کو اسلام کے تصوف کی ایک شاخ یا اس کی کم و بیش تحریف و توسیع سمجھا ہے سعید نفیسی وہ پہلے عالم میں جنھوں نے یہ نکتہ پیش کیا ہے غالبا اپنے اسی نکتہ پر زور دینے کے لیے وہ تصوف کو تین خانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان کی بات کو سمجھنے کے لیے خود انہی کے درجی ذل الفاظ کو نقل کرنا ضروری ہے ۔

تصوف را به سه دسته و سه ناحیه باید تقسیم کرد تصوف عراق و جزیره که از تعلیمات نصارای نستوری و یعقوبی (یعاقبه) و صابئین و اصول مرقیون و ابن دیصان و پرس متاثر شده و تصوف ایران و هندوستان که از تعلیمات ایرانی زردشتی و مانوی و از بودائی مہدی عاریت گرفته و تصوف مصر و شام و مغرب و اندلس که از تعلیمات افلاطونیان جدید و یهود و حکمای اسکندرانی متاثر شده است . شگفت این

است که تصوف ایرانی که می توان آنرا تصوف شرقی “ هم نامید در ناحیه ای که هنوز بوداییان در آنجا بودهاند و اگرهم مسلمانان آنها را نابودکرده اند یادگار شان بسیار تازه و زنده بوده است ریشه گرفته یعنی همان سرزمین بلخ ، بزرگترین میوانان

تصوف ایران در نخستین مراحل رواج آن سه تن بلخی بوده اند : ابو اسحق ابراهیم بن ادہم بن سلیمان بن منصور بلخی درگذشته ۱۶۱ یا ۱۶۲ یا ۱۶۶، ابوعلی شقیق بن ابراهیم بلخی در گذشته ۱۷۴ و ابو عبد الرحمن حاتم بن عنوان اصم معروف به حاتم اسم در گذشته ۲۳۷، راهنمای بسیار مطمئن که برای ثبوت این مطلب داریم نخست مراحل میرد

سلوک در تصوف ایران است که در همه فرق تصوف ما هست و در بسیاری از آنها سفت درجه دارد و این اصول عینا در طریقه مانی و به اندک اختلافی در طریقه بودائی بهت نتیجه تصوف ما ارتقاء و پیوستن به مبدا و فنا فی الله و محو و تجرید و بالا تر از یمه

اتحاد و حلول است.. رص ص ۳۴- ۳۵) تصوف کو تین شاخوں اور تین علاقوں میں تقسیم کرنا چاہئے۔ عراق اور جزیرہ کا تصوف جو نستوری نصرانیوں ، یعقوبیوں ، صابنیوں ، مرقیون (Marcion)

ابن دیمان، برمس (Hermes) کی تعلیمات سے متاثر ہوا ہے۔ ایران اور ہندوستان کا تصوف جو ایرانی زردشت، مانی اور بند دوستانی بودھ کی تعلیمات سے مستعار لیا گیا ہے اور مصر شام ، مغرب اور اندلس کا تصوف جو تو فلاطونیوں ، یہودیوں اسکندرانی فلسفیوں کی تعلیمات سے متاثر ہوا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ایرانی میں تصوف جس کو مشرقی تصوف بھی کہا جا سکتا ہے اُس علاقے یعنی بالا برگ و بار لایا جہاں اب بھی بدھ مت کے ماننے والے رہتے ہیں اور اگر ر اس علاقے میں مسلمانوں نے ان کو نابود بھی کر دیا ہے تب بھی وہاں ان کے آثار زندہ و پائیندہ ہیں۔ ایرانی تصوف کے ابتدائی دور کے تین عظیم پیشوا بلغ ہی کے رہنے والے تھے ۔ ابو اسحق ابراہیم بن ادہم بن سلیمان بن منصور متوفی ۱۶۱ یا ۱۶۴ یا ۱۶۶ ابو علی شقیق بن ابراہیم بلخی متوفی ۱۷۴ اور ابوعبد الرحمن حاتم بن عنوان اصم معروف به حاتم اسم متوفی ۲۳۷ – ( جو کچھ ہم نے کہا ہے) اس کے ثبوت کے لیے سب سے اہم دلیل ہمارے پاس یہ ہے کہ ایرانی تصوف میں مراحل سیر و سلوک کو ہر چیز پر اولیت حاصل ہے اور ہمارے تصوف کی جتنی بھی شاخیں

ہیں اُن میں یہ چیز ملتی ہے ۔ بہت سی شاخوں میں یہ مراحل سات درجات پر مشتمل ہیں یہ طریقہ مانوی طریقے کے بالکل مطابق اور بودھی طریقے سے ذرا سا

مختلف ہے ۔۔ تصوف کو ان تین حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد انھوں نے فنا فی اللہ ہونے اور ایرانی تصوف

کے اتحاد و حلول” کے نظریات پر گفتگو کرتے ہوئے اس کو بھی بعینہ زردشتی تعلیمات کا حامل بایا ہے ۔ اسی طرح ایرانی تصوف میں فنا اور محویت کا جو تصور ہے اس کو وہ اس ایوان کے تصور کا بدل قرار دیتے ہیں جو بودھی فلسفہ کی اساس ہے اس سلسلے میں انھوں نے سنائی ، عطار

جامی وغیرہ کی شاعری سے مثالیں دیتے ہوئے اپنی بات ثابت کی ہے۔ ابتدائی دور کے ایرانی مشائخ تصوف کے جو اقوال میں سعید نفیسی کے نزدیک وہ بودھوں کے

اقوال سے بڑی شباہت رکھتے ہیں اس سلسلے میں انھوں نے عالم اسم کے ایک قول کو نقل کر کے اس کو بودھی تعلیم کا چربہ قرار دیا ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ چونکا دینے والی بات انھوں نے یہ کہی ہے کہ بودھوں میں گو تم بودھ کی زندگی کے بارے میں جو داستانیں مشہور ہیں وہ

مشائخ تصوف کی داستانوں سے بہت ملتی جلتی ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے گوتم بودھ اور ابراہیم ادہم کی داستانوں کی ماثلت کی طرف اشارہ کیا ہے اور بتلایا ہے کہ دونوں ہی کو ان داستانوں میں شاہزادہ بتلایا گیا ہے ، دونوں ہی کو کچھ ایسے تجربات ہوتے ہیں کہ ان کا دل دنیا سے اچاٹ ہو جاتا ہے اور وہ حقیقت کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ سعید نفیسی نے ابراہیم بن ادہم کے حالات عطار اور جامی کے حوالے سے لکھ کر دونوں داستانوں کی مماثلتوں کو بڑی وضاحت کے ساتھ ثابت کیا ہے ۔ ان مماثلتوں کا ذکر کرنے کے بعد وہ ایک متاخر ایرانی صوفی میرا بوالقاسم فندرسکی کی اُس کتاب کا خاص طور سے حوالہ دیتے ہیں جو انھوں نے فارسی زبان میں جوگ باشست“ کے نام سے ترجمہ کی ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ایرانی تصوف میں ہمیشہ سے مہندوستانی اجزا شامل رہے ہیں اسی کے ساتھ ساتھ وہ ایران کے ان سلاسل تصوف کا ذکر کرتے ہیں جو اصلا ایرانی مگراب ایران سے ختم ہو چکے ہیں لیکن وہ آج بھی مہندوستان کے صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ مہندووں اور خاص کر بودھوں میں مقبول ہیں سعید نفیسی کا اشارہ چشتیہ قادریہ، نقش بندیہ اور سہروردیہ سلسلوں کی طرف ہے جو آج بھی ہندوستان کے مقبول ترین

سلاسل ہیں۔

ان نکات کو پیش کرنے کے بعد سعید نفیسی نے ایرانی تصوف پر فلسفیانہ نقطہ نظر سے روشنی ڈالی ہے اور اپنی بات کا آغاز اس نکتہ سے کیا ہے کہ ایرانی تصوف کی اصل و حقیقت تک پہونچنے میں دو چیزیں مانع رہی ہیں اول تو صوفیہ کا در پردہ اظہار خیال کرنے کا انداز، دوئم ایرانی تصوف کے سلسلے میں یورپی مستشرقین کا رویہ۔ پہلی رکاوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے

لکھا ہے :-

صوفیه خود همیشه در پرده سخن گفته اند و چاره جز آن نه داشته اند که بیشتر به کنایات

و استعارات و حتی اصطلاحات مرموز و آنچه خود اشطحیات گفته اندینی به تعبیرات

ظاہراً پریشان و آشفته اما با طنا پر مغز و دقیق مطلب بسیار رقیق و لطیف خود

را بیان کنند حقیقتی که بزرگان تصوف در دل داشته اند با ندازه ای بیان آن

دشوار منانی به مصلحت روزگاران بوده است که برخی از ایشان جان بر سران

این کار نهاده و احیانا به دیوانگی معروف شده اند. بهترین نمونه این سخنان کفر آمیز گفتار حسین بن منصور حلاج و عین القضاة بهدانی در کتاب زبدة الحقائق، و تمهیدات و دیزدان شناخت و شکوی الغريب عن الأوطان الى علماء البلدان، ومكاتيب اور و گفتار سعد الدین حمویه در کتاب المحبوب و قلب المنقلب، وسجنجل الارواح و گفتار روزبهان بقلی در رساله القدس، وكتاب الانوار و تفسیر عرائس و برخی جاهای مثنوی مولانا جلال الدین بلخیست برخی از این صوفیان شطاح یعنی کسانیکه بی پرده سخن گفته اند گاهی بیان بسیار روشن دارند و مخصوصا در شعر فارسی نمونه های جالبی بست عین القضاة در همان کتاب تمهیدات قطعه ای دارد که آنرا به خطا

ناصر خسرو نیز بسته اند و آن این است :

همه رنج من از بلغار یا نست گنه بلغاریا نرا نیز هم نیست خدایا ، این بلا وفتنه از تست همی آرند نتر کانرا از بلغار لب و دندان آن ترکان چو ماه که از خوبی لب و دندان ایشان

که ما داهم همی باید کشیدن؟ بگویم گر تو بتوانی شنیدن! ولیکن کس نمی دارد جنگیدن برای پرده مردم دریدن بدین خوبی بنالیست آفریدن بدندان لب همی باید گزیدن

خود صوفیہ نے ہمیشہ در پردہ گفتگو کی ہے ان کے پاس اس بات کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہ تھا کہ وہ اپنی بیشتر باتوں کو اشاروں کنایوں، مرموز اصطلاحوں اور جس چیز کو وہ شطحیات کا نام دیتے ہیں، یعنی وہ چیز جو بظاہر تو پراگندہ اور بے رابط تعبیر معلوم ہوتی ہے مگر باطنی طور پر انتہائی دقیق ، لطیف اور پر مغز تعبیرات کی حامل ہوتی ہے، کے ذریعہ بیان کریں ۔ وہ حقیقت جو بزرگان تصوف کے دلوں میں جاگزیں تھی ان کا بیان کرنا دشوار بھی تھا اور مصلحت قدر کے خلاف بھی۔ ان میں کچھ لوگوں نے اس کام کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی اور کبھی کبھی دیوانے کے نام سے بھی موسوم ہوئے ۔ ان کفر آمیز باتوں کا سب سے بہترین نمونہ منصور حلاج کی باتیں ، زبدۃ الحقائق ، تمهیدات ، یزدان شناخت، شکوی

الغريب عن الاوطان الى عمار البلدان، اور ان کے مکاتیب میں مندرج عین القضات سمدانی کی باتیں، المحبوب ، قلب المنقلب، سجنجل الارواح میں سعد الدین حمود کی باتیں ، رسالة القدس ، کتاب الانوار اور تفسیر عرائس میں مندرج روز بہان بقلی کی باتیں اور مولانا جلال الدین بلخی (مولانا روم) کی مثنوی کی بعض باتیں ہیں۔ ان شطاح ” صوفیوں میں سے بعض وہ لوگ جنھوں نے در پردہ باتیں نہیں کی ایران کی باتیں کبھی کبھی بہت روشن اور واضح ہوتی ہیں خاص طور سے فارسی شعر میں انھوں نے اس طرح کی جو باتیں کہی ہیں وہ اس کا بہت دلچسپ نمونہ میں عین القضاۃ کی کتاب تمہیدات میں ایک قطعہ جو غلطی سے ناصر خسرو کے نام سے

 

منسوب کر دیا گیا ہے یہ ہے :

 

۸۲

 

همه رنج من از بلغاریا نست که مادا هم همی باید کشیدن الخر) عین القضاۃ کے مذکورہ بالا شعر کے علاوہ سعید نفیسی نے ناصر خسرو، حافظ اور مولانا روم کے اشعار

 

نقل کر کے اپنی بات کی وضاحت کی ہے لطف کی بات یہ ہے کہ ایک طرف وہ خودان شطحیات شد کو کلمات کفر آمیز کہتے ہیں اور دوسری طرف انہی کفر آمیز کلمات میں حقیقت مطلق کو بے نقاب دیکھنے کی سعی بھی فرماتے ہیں اسی سلسلا سخن میں وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہمارے (ایرانی) صوفیہ زیادہ تر ایسے ماحول میں رہے ہیں جہاں آزادی خیال پر بندشیں تھیں اس لیے ان صوفیا نے استعارات اور کنایات میں اپنی بات کہی ہے۔ ان شعرا کا حوالہ دینے کے بعد وہ فارسی نشر کی بھی کئی کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں اور اس سلسلے میں احمد غزالی کی کتاب السوانح اور عراقی کی لمعات“ کا خاص طور سے ذکر کر کے

ان کتابوں کو پردہ پوشی کا شاہکار قرار دیتے ہیں۔

سعید نفیسی کے نزدیک گزشتہ دو صدیوں سے ایرانی تصوف کی جو غلط ترجمانی ہوتی رہی ہے اس

کی ساری کی ساری ذمہ داری مستشرقین کے سر ہے۔ ان کے نزدیک ان مستشرقین کا خمیر خود خواہی ہر اور خویشتن پرستی سے بنا ہے اس لیے وہ جو بھی علمی کام کرتے ہیں وہ ان دونوں عیوب سے پر

ہوتے ہیں ان کو یورپی مستشرقین سے یہ شکایت ہے کہ چونکہ وہ رومی تمدن کے وارث ہیں اس لیے

وه خواهی نخواہی اس بات کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ دنیا کے ہر علم اور ہر فن کا سلسلہ رومی تمدن

کے اثرات سے لے جاکر ملا دیں۔ ایرانی تصوف کے سلسلے میں بھی ان کی کوشش یہی رہی ہے کہ وہ ایرانی تصوف کو بھی رومی اثرات کا حامل ثابت کریں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ایرانی تصوف

میں کوئی ایسی چیز دکھائی دیتی ہے جو نوفلاطونیت ، ہر حسیت ، اسرائیلیت وغیرہ کی ہم شبیہ ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان فلسفوں نے خود ایرانی تصوف سے استفادہ کرتے ہوئے اس کے بعض اجزا کو اپنا لیا ہے ایرانی تصوف نے درج بالا نظام ہا سے فکر سے کوئی چیز مستعار نہیں لی ہے چونکہ یورپی مستشرقین اس نکتہ کو فراموش کر دیتے ہیں اس لیے وہ جو بھی علمی کام کرتے ہیں وہ ایرانیوں کے لیے ایک دردسر ہی ثابت ہوتا ہے اور ایرانیوں کی گمراہی کا سبب بھی بنتا ہے اس سلسلے میں ان کو لوٹی ماسینون ۴۰) (Massignon سے سب سے زیادہ شکایت ہے جن کو سعید نفیسی متعصب اور کوتاہ نظر قرار دیتے مہیں اس کے برعکس وہ برطانوی مستشرق نکلسن کے قائل نظر آتے ہیں اور ان کی کامیابی کا راز اس بات میں مضمر قرار دیتے ہیں کہ ان کو ظہور اسلام سے قبل کے ایران کے بارے میں کچھ معلومات تھیں۔ مستشرقین تصوف کو مبانی کا جو چربہ قرار دیتے ہی اس کے بارے میں عید نفیسی کا خیال ہے کہ یہ بات عراق اور جزیرہ کے تصوف کے بارے میں درست قرار دی جا سکتی ہے لیکن اس کا انطباق ایرانی تصوف پر نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ایرانی تصوف خالص آریائی حکمت ہے اور اس کا سامی افکار سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ پھر آخر ایرانی تصوف ہے کیا ؟ اس کا جواب سعید نفیسی کے الفاظ میں یہ ہے :۔ نکته اساسی درباره تصوف ایران این است که تصوف همیشه ” طریقت بوده است یعنی مشرب و مسلک فلسفی بوده و نه شریعت و مذهب و دین تصوف همواره حکمت عالی و بلند پایه ای برتر و بالا تر از ادیان بوده است و به همین جهت بهیچ نوع عبادات و فرائض و اعمال و این گونه فروعی که در ادیان بوده است در تصوف نه بوده و صوفیه ایران نوعی از نماز یا روزه یا عبادت دیگر مخصوص بخود نه داشته اند نه تنها جنبه روحانیت در مبانیت یعنی – Cleri calisme در آن نه بوده و با امتیاز طبقاتی یعنی Cast, sectarisme های قائل نه بوده اند ، بلکه پست ترین مریدان در نتیجه لیاقت یعنی طی مراحل سلوک و درجات می توانستند جانشین مرشد خود بشوند و خرقه و مسند به ایشان برسد

د ایرانی تصوف کے سلسلے میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ یہ تصوف ہمیشہ سے طریقت رہا ہے یعنی یہ ایک فلسفیانہ مشرب و مسلک تھا ” شریعت ” مذہب یا دین نہیں۔ تصوف ہمیشہ سے مذہب سے بلند تر اور بالاتر حکمت عالی رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مذاہب میں جو عبادتیں، فرائض اعمال اور اسی طرح کی فروعی چیزیں ہیں تصوف میں نہیں تھیں اور ایرانی صوفیہ کسی قسم کی کوئی نماز کوئی روزہ کوئی عبادت اپنے لیے مخصوص نہیں کرتے تھے۔ صرف یہی نہیں کہ ایرانی تصوف میں روحانیت اور رہبانیت Clericalism نہیں تھی اور ایرانی تصوف قوم ، نسل اور فرقہ کا بھی قائل نہیں رہا ہے بلکہ اپنی لیاقت یعنی لیے مراحل سلوک و درجات کے ذریعہ پست ترین مرید بھی اپنے مرشد کے جانشین ہو سکتے تھے اور اس کے بھی اہل ہو سکتے تھے کہ ان کے مرشد کا خرقہ اور مسندان کو ملے )

 

اسی چیز کو سعید نفیسی ایرانی تصوف کی آزادی فکر ( Liberalism) اور انفرادیت (Individualism) قرار دیتے ہیں ۔ اس آزادی فکر کا نتیجہ تھاکہ ایرانی صوفیہ کے نزدیک یہود، مسلمان اور بت پرست سب یکساں تھے سعید نفیسی نے تصوف کو اصل قرار دیا ہے اور کہا ہے که فروعات کے سلسلے میں ہر شخص آزاد تھا کہ جس فرع کو چاہیے اختیار کرے ۔ ان کے نزدیک اسی وجہ سے اسلامی ادوار میں کچھ صوفی حنفی تھے تو کچھ شافعی کچھ حنبلی تھے تو کچھ مالکی اور کچھ شیعہ اوریہی صورت حال آج بھی موجود ہے ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کا خیال ہے کہ ایرانی تصوف کو Anti clericalism – اور Anti Ritualism سمجھنا چاہیے نہ کہ کسی طریقے عبادت اور مراسم عبادت کا پابند ۔ اس کی وجہ وہ یہ تبلاتے ہیں کہ ایرانی تصوف ساسانی دور کی یادگار ہے جس کے عوام طبقاتی امتیازات اور (Dogmatism) ( اذعانی اصولیت) سے تنگ آچکے تھے اسی زنانی میں ایران کے نئے مذہب مانویت نے طبقاتی امتیازات کی نفی کرنی شروع کی اس مذہب نے ایرانیوں کے سامنے یہ نیا تصور پیش کیا کہ کوئی بھی شرف و امتیا ز موروثی نہیں ہے بلکہ ہر انسان اپنی اخلاقی برتری معنوی فضیلت، ریاضت و مجاہدے کے ذریعے، ہر شرف اور ہر امتیاز حاصل کر سکتا ہے۔ اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لیے سعیدنفیسی نے عربوں کی اس روش کا پھر

تذکرہ کیا ہے جو انھوں نے خلافت راشدہ کے خاتمے کے فوراً بعد اپنانی شروع کر دی تھی اور ایرانیوں بلکه تمام عجمیوں کو موالی اور ممالیک سمجھتے تھے۔ جولوگ ان اکرمکم عند الله القاسم کے ماننے والے تھے وہ اپنے خیالات پر مجھے رہے اور وہ کسی بھی شرف و منزلت کو موروثی ماننے پر تیار نہ تھے جب بقول سعید نفیسی بنوامیہ اور بنو عباس کے دور حکومت میں آزاد منشی کا خاتمہ ہو گیا تو آزادی فکر پر بھی زوال آیا لیکن ایرانیوں نے اس آزادی فکر کو تصوف کے ذریعہ دوبارہ حاصل کر لیا۔

اسی سلسلہ سخن میں سعید نفیسی نے ان یورپین مستشرقین کو دو نکات سے بیگانہ قرار دیا ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ ایرانی تصوف ، نصرانی ، یہودی، تو فلاطونی اور اسکندرانی فلسفیوں کے افکاروخیالات کا ملغوبہ ہے مذکورہ دونوں نکات کے سلسلے میں سعید نفیسی کے اصل الفاظ یہ ہیںدونی

نخست آنکه به تعلیمات تصوف آسیا و ملل اسلامی را یکسان پنداشته

و سر چشمه همه آنها را یکی دانسته اند و نه توانسته اند تصوف ایران را از یک سو از تصوف عراق و جزیره و از سوی دیگر از تصوف مغرب یعنی سوریه و مصر واسپانیا و شمال افریقا جدا کنند و حال آنکه هر یک ازین سه طریقه سرچشمه دیگر دارد.

دوم آنکه متوجه نه بوده اند که پس از ظهور تصوف ابن العربی در مغرب و نزدیک شدن پیروان آن به ایران افکا را بن العربی که آمیخته به اسرائیلیات و افکار مغرب زمین است روز افزون در تصوف ایران راه یافته و آنرا قلب کرده وپیش از آن راه نه یافته بود (ص ۵۴)

اول تو یہ کہ انھوں نے تمام ایشیائی اور اسلامی قوموں کے تصوف کی تعلیمات کو نہ صرف یکساں سمجھا بلکہ ان سب کے سرچشموں کو بھی ایک ہی قرار دیا۔ وہ لوگ ایرانی تصوف کو عراق اور جزیرہ کے تصوف اور مغرب یعنی شام، مصر، اسپین اور شمالی افریقہ کے تصوف سے جدا نہ کر سکے حالانکہ ان تینوں

علاقوں کے طریق تصوف کے سرچشمے جدا جدا ہیں ۔ دوسرا نکتہ جس کی طرف وہ توجہ نہ کر سکے یہ ہے کہ مغرب میں ابن العربی

کے تصوف کے عالم ظہور میں نے کے بعد اس تصوف کے پیرووں کے

ایران سے قریب رہنے کی وجہ سے ابن العربی کے وہ افکار جو اسرائیلی

اور مغربی فکر کا آمیزہ ہیں ایرانی تصوف میں تیزی سے راہ پانے لئے لگے اور ان افکار نے ایرانی تصوف کو زیر وزبر کر کے رکھ دیا (ابن العربی کے تصوف کے عالم ظہور میں آنے سے پہلے) اس طرح کے افکار نے ایرانی تصوف میں راہ نہ پائی تھی ۔

سعید نفیسی کے نزدیک ایرانی صوفیوں میں جس شخص نے سب سے پہلے ابن العربی کے افکار کے کچھ حصوں کو قبول کیا وہ مولانا جلال الدین بلخی (معروف بہ مولانا روم ہیں ان کے بعد صدر الدین قونیوی اور نعمت اللہ ولی بھی اس مغربی تصوف سے نہ صرف متاثر ہوئے بلکہ اس کے ہم آواز ہو گئے۔ سعید نفیسی نے مشہور شاعر عراقی کا شمار بھی ابن العربی کے پیرووں میں کیا ہے۔ ان کے نزدیک اس وجہ سے ایران کا تصوف خالص اور بے میل نہ رہ سکا بلکہ اس نے

ایک دوسرا رنگ اور ایک دوسری جہت اختیار کی۔ اس سلسلے کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ سعید نفیسی کے نزدیک ہندوستان و

پاکستان میں جو سلاسل تصوف رائج ہیں اور ان کا جو طریق ہے وہ حقیقی ایرانی تصوف اور اس کا طریق ہے جس نے اپنا رنگ و آہنگ برقرار رکھا ہے۔ وہ جنوبی ہند میں رائج چند سلاسل سے تو صرف نظر کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک وہ سلاسل محی الدین ابن العربی کے افکار وخیالات کے عکاس ہیں اسی لیے ہندوستان میں ان کی کوئی خاص پذیرائی نہیں ہوئی اسلسلہ قادری

جو ان کے نزدیک ایرانی تصوف ہی کی ایک شاخ ہے چونکہ افکار بیگانگان“ سے بوجھل ہو گیا ہے

اس لیے اس کو مہندوستان میں دوسرے سلاسل کے مقابلے میں کم ہی مقبولیت حاصل ہے۔ ایران

یں تو یہ سلسلہ بالکل ہی پروان نہ چڑھ سکا سعید نفیسی نے ایرانی تصوف کو جوانمردی یا فتوت کی تعلیم

دینے والا بتلایا ہے ان کا کہنا ہے کہ اگر عربوں کے یہاں جوانمردی یا فتوت کے تصور کا کچھ عکس ملتا ہے تو یہ ان کی اپنی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ انھو نے ایرانیوں سے مستعار لی ہے اس سلسلے میں ان کا

اس باب کا یہ آخری جملہ خاص طور سے قابل ذکر ہے :

دلیل دیگر اختصاص آن به ایران این است که با آن همه روابی که تصوف ایرانی در چند داشته جوانمردی و فتوت دیگران

که مخصوص ایرانی و زاده فکر ایرانیان ساکن ایران بوده به مند نه رفته است (ص ۵۵) ( اس (تصوف) کے ایران سے مختص ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ ایرانی تصوف اگرچہ مہندوستان میں

رائج ہوا مگر جوانمردی اور فتوت کا تصور جو ایران کی ایک مخصوص چیز اور ایران میں رہنے والے ایرانیوں کاز ائیدہ فکر ہے ہندوستان نہ میں پہنچا ہے (زیر ترتیب کتاب سعید نفی کی علمی خدمات کے چند متنا)

Categories: ALL BLOG کالمز