MIANA LIBRARY LOGO
ماہ ربیع الأول کا ورود دعوت جشن و مسرت یا پیغام بیداری؟

URDU Speech on Rabiul Awwal by Molana Azad

in ALL, BLOG, تقاریر, فقہ, گوشہ کتب مولانا آزاد, مسائل on September 17, 2024

ماہ ربیع الاول کا ورود تمہارے لیے جشن ومسرت کا ایک پیغام از مولانا ابو الکلام آزاد

Rabiul Awal Mah e Jashan e Musarat ya Pegham e Bidari BY Molana Abu Al Kalam Azad

ماہ  ربیع الأول کا ورود دعوت جشن و مسرت یا پیغام بیداری؟

مولانا أبو الکلام آزاد کی ایک معرکۃ الآراء تقریر!

عزیزان ملت : ماہ ربیع الاول کا ورود تمہارے لیے جشن ومسرت کا ایک پیغام عام ہوتا ہے ، کیونکہ تم کو یاد آجاتا ہے کہ اس مہینے کے ابتدائی ہفتوں میں خدا کی رحمت عامہ کا دنیا میں ظہور ہوا اور اسلا م کے داعی برحق کی پیدائش سے دنیا کی دائمی  غمگینیاں اور سرگشتگیاں ختم ہو گئیں ـصلی اللہ علیہ وسلم ـ

تم خوشیوں اور مسرتوں کے ولولوں سے معمور ہو جاتے ہو۔ تمہارے اندر خدا کے رسول بر حق کی محبت و شیفتگی ایک بیخودانہ جوشی و محویت پیدا کر دیتی ہے۔ تم اپنا زیاد سے زیادہ وقت اس کی یاد میں ، اسی کے تذکرہ میں ، اسی کی محبت کے لذت و سرور میں بسر کرنا چاہتے ہو۔ بلا شبہ محبت نبویﷺ اور عشق محمدی ﷺکے یہ ولولے تمہاری   زندگی کا قیمتی متاع ہیں اور تم اپنے ان پاک جذبات کی جتنی بھی حفاظت کرو کم ہے۔

تمہارا یہ عشق الہی ہے ، تمہاری یہ محبت ربانی ہے، تمہاری یہ شیفتگی انسانی سعادت اور راست بازی کا شیشہ ہے اور تم اس وجود مقدس و مظہر کی محبت رکھتے ہوتے جس کو تمام کائنات انسانی میں تمہارے خدا نے ہر طرح کی محویتوں اور ہر قسم کی محمودیتوں کے لیے چن لیا ۔ اور محبوبیۃ عالم کا خلعت اعلیٰ صرف اسی کے وجود اقدس پر راست آیا۔ کرہ ارضی کی سطح پر انسان کے لیے بڑی سے بڑی بات جو لکھی جا سکتی ہے . زیادہ سے زیادہ جو عشق کیا جا سکتا ہے ، اعلیٰ سے اعلیٰ جو مدح و ثنا کی جا سکتی ہے ۔ غرض کہ انسان کی زبان انسان کے لیے جو کچھ کہ سیکھتی ہے اور کر سکتی ہے وہ سب کا سب صرف اسی ایک انسان کامل واکمل کے لیے ہے اور اس کا مستحق اس کے سوا کوئی نہیں ہے   ؎

مقصود با زویر و حرم جز حبیب نیست

ہر کجا کنیم سجده بدان آستان رسید

و الله در ما قال : عبارتنا شتى وحسنك واحداً وكل ذاك الجمال یشیر

خدا کی الوہیت و ربوبیت جس طرح وحده لاشریک ہے کہ کوئی ہستی اس کی شریک نہیں ، اسی طرح اس کامل انسان کی انسانیت اعلیٰ اور عبدیت کبری بھی وحدہ لاشریک ہے ۔ کیونکہ اس کی انسانیت و عبدیت میں اس کا ساجھی نہیں اور اس کے حسن و جمال فروانیت کا کوئی شریک نہیں ۔

منزه عن شريك في محاسنه

فجوهر الحسن فيه غير منقسم

 یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں تم دیکھتے ہو کہ تمام انبیا کرام علیہ الصلاۃ والسلام کا ذکر جہاں کہیں بھی کیا گیا ہے وہاں ان سب کو ان کے ناموں سے پکارا ہے ۔ اور ان کے واقعات کا بھی ذکر کیا ہے تو ان کے ناموں کے ساتھ کیا ہے ، لیکن انسان کا مل ، اس فردا کمل اس صفات عبدیت کے وحدہ لا شریک کا اکثر مقامات میں اس طرح ذکر کیا ہے کہ نہ تو اس کا نام لیا گیا نہ کسی دوسرے وصف سے نامزد کیا ، بلکہ صرف عبد کے لفظ سے اس کے پروردگار نے اسےیاد فرمایا :

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى

ترجمہ: پاک ہے وہ خداوند قدوس جس نے ایک رات اپنے عبد کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک کی سیر کراوی۔

سورہ جن میں فرمایا :

وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا

ترجمہ : اور جب اللہ تعالی کا بندہ (عبد) تبلیغ حق کے لیے کھڑا ہوتا ہے تاکہ اللہ کو پکارے تو کفار اس طرح گھر لیتے ہیں گویا قریب ہے کہ اس پر آگھر یں گئے۔

سورہ کہف کو اس طرح شروع کیا :

 الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَىٰ عَبْدِهِ الْكِتَابَ

ترجمہ ! ” تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے عبد پر کتاب اتاری “

سورہ فرقان کی پہلی آیت :

 تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ
عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا

 ترجمہ : ” پاک ہی پاک ذات ہے اس کی جس نے (الفرقان) اپنے عہد پر اتارا۔ تاکہ وہ تمام عالم کی ضلالتوں کے لیے ڈانے والا ہو ؟

اسی طرح سورہ نجم میں فرمایا :

 فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ

ترجمہ : ” پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے (عبد) پر وحی نازل فرمائی جو کچھ نازل فرمانا تھا۔

سورہ حدید میں کہا :

هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ

ترجمہ : وہ خدا ہی ہے جو اپنے بندے(عبد) پر مان صاف آیتیں بھیجتا ہے؟

 پس ان تمام مقامات میں آپ کا اسم گرامی نہیں لیا ، بلکہ اس کی جگہ صرف (عبد) فرمایا ۔ حالانکہ بعضی دیگر انبیا کے لیے اگر عد کا لفظ فرمایا ہے تو اس کے ساتھ نام کی بھی تصریح کر دی ہے ۔

سورہ مریم میں حضرت زکریا کے لیے فرمایا :

 ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا

سورہ ص میں ہے :

 وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ

اس خصوصیت و امتیاز سے اسی حقیقت کو واضح کرنا مقصود الہی تھا۔ کہ اس وجود گرامی کی عبدیت اور بندگی اسی درجہ آخری و مرتبہ قصوری تک پہنچ چکی ہے جو انسانیت کی انتہا ہے اور اس لیے بغیر اضافت اور نسبت کے صرف عبد اسکو ناموں اور علموں کی طرح پہچنوا دیتا ہے، کیونکہ تمام کائنات بہتی میں اس کا سا کوئی نہیں ۔ پس جس کی یہ یگانگی اور بے ہمتائی کا یہ مرتبہ ہو اس کی یاد میں جتنی بھی گھڑیاں کٹ جائیں ۔ اس کے عشق میں جتنے آنسو بھی بہ جائیں ، اس کی محبت ۔ میں جتنی آہیں بھی نکل جائیں اور اس کی مدح و ثنا میں جس قدر بھی زبانیں زلزلہ پیرا ہوں کم ہے ۔ انسانیت کا حامل روح کی سعادت ، دل کی طہارت ، زندگی کی پاکی اور ربانیت کی پادشاہی ہے ۔ واللہ در ما قال

راہ تو بہر قدم کو پویند خوش است
وصل تو بہر سبب که جوئند خوش است
روئے تو بہر دیده که بنیند نکو است
نام تو بہر زبان که گوئند خوش است

جشن حصول و ما تم ضیاع

لیکن جب کہ تم ایک ماہ مبارک ہیں …….. یہ سب کچھ کرتے ہو اور

 اس ماہ کے واقعہ ولادت کی یاد میں خوشیاں مناتے ہو تو اس کی مسرتوں کے اندر تمہیں کبھی اپنا وہ ماتم یا د آتا ہے جس کے بغیر تمہاری کوئی خوشی نہیں ہو سکتی ؟

 کبھی تم نے اس حقیقت پر بھی غور کیا ہے کہ یہ کس کی پیدائش ہے جس کی یاد کے لیے تم سامان جشن کرتے ہو ؟
 یہ کون تھا جس کی ولادت کے تذکرہ میں تمہارے لیے خوشیوں اور مسرتوں کا ایسا عزیز پیام ہے ۔؟

آہ!       اگر اسی مہینے میں وہ آیا جس نے تم کو سب کچھ دیا تھا تو میرے لیے اس سے بڑھ کر اور کسی مہینے میں ماتم نہیں کیونکہ اس مہینے میں پیدا ہونے والے نے جو کچھ ہمیں دیا تھا وہ سب کچھ ہم نے کھو دیا ۔ اسی لیے اگر یہ ماہ ایک طرف بخشنے والے کی یاد تازہ کرتا ہے تو دوسری طری کھونے والوں کے زخم کو بھی تازہ ہونا چاہیے ۔

 تم اپنے گھروں کو مجلسوں سے آباد کرتے ہو، مگر تمہیں اپنے دل کی اجڑی ہوئی بستی کی بھی کچھ خبر ہے ۔

تم کا فوری شمعوں کی قندیلوں کو روشن کرتے ہو مگر اپنے دل کے اندھیاروں کو دور کرنے کے لیے کوئی چراغ نہیں ڈھونڈتے ۔

تم پھولوں کے گلدستے سجاتے ہو، مگر آہ تمہارے اعمال حسنہ کاپھول مرجھا گیا ہے۔

 تم چھینٹوں سے اپنے دامن و آستین کو معطر کرنا چاہتے ہو، مگر آہ تمہار عظمت اسلامی کی عطر یزی سے دنیا کی مشام روح یکسر محروم ہے۔

 کاش تمہاری مجلسیں تاریک ہوتیں ، تمہارے اینٹ اور چونے کے مکانوں کو زیب و زینت کا ایک ذرہ نصیب نہ ہوتا ، تمہاری آنکھیں رات رات بھر مجلس آرائیوں میں نہ جاگتیں ۔ تمہاری زبانوں سے ماہ ربیع الاول کی ولادت کے لیے دنیا کچھ نہ سنتی مگر تمہاری روح کی آبادی معمور ہوتی ، تمہارے دل کی بستی نہ اجڑتی، تمہارا طالع خفتہ بیدار ہوتا ہے اور تمہار کی زبانوں سے نہیں مگر تمہارے اعمال کے اندر سے اسوہ حسنہ نبوی کی مدح وثنا کے ترانے اٹھتے :

 فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ

ترجمہ: بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہو جایا کرتیں ، بلکہ دل سینوں میں ہیں وہ اندھے ہو جایا کرتے ہیں   ؎

مجھے ڈری ہے دل زندہ تو نہ مر جائے

کہ زندگانی عبادت ہے تیرے جینے سے

پھر آہ!  وہ قوم اور صد آہ اس قوم کی غفلت و نادانی جس کے لیے ہر جشن و مسرت میں پیام ماتم ہے اور جس کی حیات قوی کا ہر قہقہہ عیش فغان حسرت ہو گیا ہے ، مگر نہ تو ماضی کی عظمتوں میں اس کے لیے کوئی منظر حیرت ہے ، نہ حال کے واقعات میں کوئی پیغام تنبیہ وہو شیاری ہے اور نہ مستقبل کی تاریکیوں میں زندگی کی کسی روشنی کو اپنے سامنے رکھتی ہے۔ اسے اپنے کام جوئیوں اور جشن و مسرت کی بزم آرائیوں سے مہلت نہیں ، حالانکہ اس کے جشن و طرب کے ہر ورود میں ایک نہ ایک پیام ما تم و عبرت بھی رکھ دیا گیا ہے۔ بشرطیکہ آنکھیں دیکھیں ، کان سنیں اور دل کی نادانی غفلت وسرشاری نے چھین لی ہو :

إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ

ترجمہ : اور بیشک اس میں اس شخص کے لیے بڑی عبرت ہے جس کے پاس دل (فہم) ہو، یا  وہ متوجہ ہو کر کان ہی لگا دیتا ہے

 ماہ ربیع الاول کی یاد میں ہمارے لیے جشن و مسرت کا پیام اس لیے تھا کہ اس مہینے میں خدا کا وہ فرمان رحمت دنیا میں آیا جس کے ظہور نے دنیا کی شقاوت و حرمانی کا موسم بدل دیا۔ ظلم و طغیان اور فساد و عصیاں کی تاریکیاں مٹ گئیں۔ خدا اور اس کے بندوں کا ٹوٹا ہوا رشتہ جڑ گیا ، انسانی اخوت و مساوات کی یگانگت نے دشمنیوں اور کینوں کو نابود کر دیا اور کلمہ کفر و ضلالت کی جگہ کلمہ حق و عدالت کی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔

  قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ

يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ 

ترجمہ : اللہ کی طرف سے تمہاری جانب ایک نو بہ ہدایت اور کتاب میں آئی ۔

 اللہ اس کے ذریعہ اپنی رضا چاہنے والوں کی سلامتی اور زندگی کی راہوں پر ہدایت کرتا اور ان کے صراط مستقیم کھولتا ہے،

لیکن دنیا شقاوت و حرمانی کے درد سے پھردکھیا ہو گئی ، انسانی شر و فساد اور ظلم و طغیان کی تاریکی خدا کی روشنی پر غالب ہونے کے لیے پھیل گئی۔ سچائی اور راست بازی کی کھیتیوں نے پامالی پائی اور انسانوں کے بے راہ گلہ کا کوئی رکھوالا نہ رہا۔ خدا کی وہ زمین جو خدا کے لیے ہی تھی غیروں کو دے دی گئی ۔ اور اس کے کلمہ حق و عدالت کے غم گساروں اور ساتھیوں سے اس کی سطح خالی ہو گئی ۔

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ 

ترجمہ : ” زمین کی خشکی اور تری دونوں میں انسان کی پیدا کی ہوئی شرارتوں سے فساد پھیل گیا ۔ اور زمین کی صلاح و فلاح غارت ہوگئی۔

پھر آہ!  تم اس کے آنے کی خوشیاں تو مناتے ہوا مگر اس کے ظہور کے مقصد سے فاضل ہو گئے ہو اور وہ جس غرض کے لیے آیا تھا اس کے لیے تمہارے اندر کوئی بےچینی نہیں ۔ یہ ماہ ربیع الاول اگر تمہارے لیے خوشیوں کی بہا رہے تو صرف اس لیے کہ اس مہینہ میں خزان ضلالت ختم ہوئی اور کلمہ حق کا موسم ربیع شروع ہو۔ پھر آج کی دنیا کی عدالت سموم ضلالت کے جھونکوں سے مرجھا گئی ہے۔

تو اے  غافل پر ستو!      تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ بہار کی خوشیوں کی رسم مناتے ہو، مگر خزاں کی پامالیوں پر نہیں روتے۔

آتشیں شریعت

اس موسم کی خوشیاں اس لیے تھیں کہ اس میں اللہ کی عدالت کی وہ آتشین شریعت کوه فاران پر نمودار ہوئی جس کی ،سعیر کی چوٹیوں پر صاحب تورات کو خبر دی گئی تھی اور جو مظلوموں کے آنسوں بہانے، مسکینی کی آہیں نکالنے، ذلت اور نامرادی سے ٹھکراتے جانے کے لیے دنیا میں نہیں آئی تھی، بلکہ اس لیے تھی تاکہ اعداء حق و عدالت ناکامی کے آنسو بہائیں ۔ دشمنان الہی مسکینی کے لیے چھوڑ دیئے جائیں۔ ضلالت و شقاوت ٹھکرائی جائے ۔ اور سچائی دراستی کا عرش اپنی جبر وئیت و قدوسیت کا اعلان کر ے ۔ پس وہ اللہ کے ہاتھ کی پٹکائی ہوئی تلوار تھی جس کی ہیبت نے باطل کی تمام طاقتوں کو لرزا دیا اور کلمہ حق کی بادشاہت کی بشارت دنیا کو سنائی۔

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ

ترجمہ:   وہ خدا ہی ہے جس نے اپنے رسول کو دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ تمام دینوں پر اسے غالب کر دے ، اگرچہ مشرکوں پر شاق گذرے۔

وہ ذلت کا زخم نہ تھا بلکہ نادادی کو زخم لگانے والا ہا تھ تھا۔

 وہ مظلومی کی تراپ نہ تھی، بلکہ ظلم کو تڑپانے والی شمشیر تھی ۔

 وہ مسکینی کی بے قرار ی نہ تھی بلکہ دنیا کو بے قرار کرنے والوں نے اس سےبے قراری پائی ۔

 وہ درد و کرب کی کر وٹ نہ تھی بلکہ درد و کرب میں مبتلا کرنے والوں کو اس سے بے چینی کا ستر ملا ۔

 وہ جو کچھ لایا اس میں غمگینی کی چیخ نہیں تھی ،ناتوانی کی بے بسی نہ تھی اور حسرت و مایوسی کا آنسونہ تھا بلکہ یکسر شادمانی کا غلغلہ تھا ۔ حیشن ومراد کی بشارت تھی ، کامیابی و عیش فرمائی کی بہار تھی ، طاقت اور فرمان فرمائی کا اقبال تھا ، امید و یقین کا خندہ عیش تھا۔ زندگی اور فیروز مندی کا پیکر و تمثال تھا ،فتح مندی کی ہمیشگی تھی اور نصرت و کا مرانی کی دائمی مسرت

 لیکن آج

 کہ جب تم عید میلاد کی مجلسیں منعقد کرتے ہو تمہارا کیا حال ہے ؟

وہ تمہاری دولت کہاں ہے؟ جو تمہیں دی گئی تھی

 وہ نعمت کامرانی کد ھر گئی؟ جو تم میں سونپی گئی تھی ۔

وہ تمہاری روح حیات کیوں تمہیں چھوڑ کر چلی گئی جو تم میں پھونکی گئی تھی ۔ ؟

آہ!   تمہارا خدا تم سے کیوں روٹھ گیا اور تمہارے آقا نے کیوں تم کو صرف اپنی ہی غلامی کے لیے نہ رکھا؟

 کیا ربیع الاول میں آنے والے نے خدا کا وعدہ نہیں پہنچایاتھا کہ عزت صرف تمہارے لیےاور اس دولت کا اب زمین پر تمہارے کوئی وارث نہیں۔

 وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُون

ترجمہ : عزت اللہ کے لیے ہے اس کے رسول کے لیے اور مومنوں کیلئے لیکن جن کے دل نفاق سے کھوئے  گئے وہ اس حقیقت کو نہیں جانتے۔

پھر یہ کیا انقلاب ہے کہ تم ذلت کے لیےچھوڑ دیئے گئے ہو۔ اور عزت نے تم سے منہ چھپا لیا ہے ؟ کیا خدا کا وعدہ نفرت تم تک نہیں پہونچایا گیا تھا کہ :

  وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ

مسلمانوں کو فتح و نصرت دینا ہمارے لیے ضروری ہے !

یہ کسی طرح نہیں ہو سکتا کہ ہم غیروں کو فتح یاب کریں اور مومن نا کام رہ جائیں ۔ ۔۔

پھر یہ کیوں ہے کہ تم نے کامیابی نہ پائی اور کام و مراد نے تمہارا ساتھ چھوڑ دیا ؟ کیا خدا کا وعدہ سچا نہ تھا؟اور کیا وہ اپنے قول کا پکا نہیں ؟

آہ!       نہ تو اس کا وعدہ جھوٹا تھا اور نہ اس نے اپنا رشتہ توڑا ، مگر تم ہی ہو ، تمہارے ہی ایمان کی موت ہے جس نے اپنے پیمان وفا کو توڑا ۔ خدا اب بھی غیروں کے لیے نہیں بلکہ صرف تمہارے ہی لیے ہے۔ بشرطیکہ تم بھی غیروں کے لیے نہیں بلکہ صرف خدا کے لیے ہو جاؤ۔

یادگار خرت

تم ربیع الاول میں آنے والے کی یاد اور محبت کا دعویٰ رکھتے ہوا اور مجلسیں منعقد کر کے اس کی مدح و ثنا کی صدائیں بلند کرتے ہو، لیکن تمہیں کبھی بھی یاد نہیں آتا ۔ کہ جس کی یاد کا تمہاری زبان دعوی کرتی ہے، اس کی فراموشی کے لیے تمہارا ہر عمل گواہ ہے ۔ پس اے غفلت شعاران ملت ! تمہاری غفلت پر صد ہزار – ! فنان وحسرت ! اگر تم اس ماہ مبارک کی اصلی حقیقت سے بے خبر صرفت زبان کے ترانوں اور دیوار کی آرائشوں اور روشنی کی قندیلوں ہی میں اس کے مقصد کو گم کر دو۔

 تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ماہ مبارک امت مسلمہ کی بنیاد کا پہلا دن ہے ۔ خدا وندی بادشاہت کے قیام کا اولین اعلان ہے ۔ خلافت ارضی و وراثت الہی کی بخشش کا سب سے پہلا مہینہ ہے۔ پس اس کے آنے کی خوشی اور اس کے تذکرہ و یاد کی لذت یہ اس شخص کی روح پر حرام ہے جو اپنے ایمان اور عمل کے اندر اس پیغام الہی کی تعمیل اطاعات اور اسوہ حسنہ کی پیروی کے لیے کوئی نمونہ نہیں رکھتا۔

Audio Book SMAJI INSAAF AUR IJTIMAIYYAT CHAPTER 02 | دوسرا مقالہ اسلام کا قانون انفاق اور اجتماعیت
Lorem ipsum dolor sit amet consectetur adipiscing elit dolor
Click Here
Previous slide
Next slide