شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھوی
نور اللہ مرقدہ
حضرت مولانا معین الدین لکھوی 1984میں حج کے موقع پر زیارت مدینہ کے لیے آئے تو حسب معمول ان کے قافلے سمیت رات کا کھانا بنایا کھانے سے فراغت کے بعد محفل جمی تو مولانا لکھوی نے “
دلا غافل نہ ہو یکدم یہ دنیا چھوار جانا ہے “
مولانا کی درد و سوز بھری آواز اور ترنم نے محفل کے تمام سامعین کو اشکبار کردیا ( میں اس وقت مدینہ یونیورسٹی کا طالب علم تھا ۔ حافظ عبدالاعلی درانی ۔ بریڈفورڈ
مرکزی جمعیت اھلحدیث پاکستان کے تیسرے اور آخری سرپرست اعلی شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھویؒ یکم جنوری 1921 کو ھندوستان کے گاؤں لکھو کے ضلع فیروزپور پنجاب میں پیدا ھوۓ۔ مولانا معین الدین لکھویؒ بہت ھی حَسین و جمیل شخصیت کے حامل انسان تھے نسب کے اعتبار سے اولاد سیدنا ومولانا علی رضی اللہ عنہ تھے۔شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھویؒ کے بڑے بھائ کا نام ولی کامل بقیت السلف حضرت مولانا محی الدین لکھویؒ جو وقت کے بہت بڑے عالم اور اللہ کے ولی تھے۔ شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھویؒ کے والد گرامی کا نام شیخ الحدیث والتفسیر علامہ محمد علی لکھوی ثم مدنیؒ تھا جنہوں نے تقریبا چالیس سال تک بخاری شریف کے علاوہ علوم اسلامیہ کی تدریس مسجد نبوی شریف مدینہ منورہ میں فرمائ اور جنت البقیع میں ھی مدفون ھوۓ۔
جو اب میں انکشاف کرنے جا رھا ھوں شائد موجودہ پوری جماعت اس بات سے ناواقف ھو صرف لکھوی خاندان اور جامعہ محمدیہ حق بازار اوکاڑا کے فضلاء کرام ھی اس حقیقت کو جانتے ھیں۔ شیخ الحدیث والتفسیر سیدی مولانا محمد علی لکھوی ثم مدنیؒ نے دوسری شادی مدینہ شریف میں فرمائ تھی۔ اللہ رب العزت نے شیخ الحدیث مولانا محمد علی لکھویؒ کو دو بیٹے اس بیوی سے بھی عنایت فرماۓ۔ جن کا نام شیخ الحدیث مولانا محمد علی لکھوی ثم مدنی نے حسن اور حُسین رکھا تھا؟ بعد میں ولی کامل مولانا محی الدین لکھویؒ اور شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھویؒ کے دونوں سوتیلے بھائ جناب شیخ حسن لکھوی صاحب اور جناب شیخ حُسین لکھوی صاحب شاہ فہد کی شوریٰ کے ممبرز اور وزیر بھی رھے۔ شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھویؒ کے بہنوئ کا نام مولانا زین العابدین لکھویؒ تھا جو جامعہ محمدیہ اوکاڑا کے شوری کے ممبر اور جامعہ محمدیہ اوکاڑا کے معاونین میں سے تھے۔ واللہ مولانا زین العابدین لکھویؒ میرے ساتھ بہت ھی پیار و محبت فرماتے تھے مجھے دوران تعلیم حضرت نے درسی کتب وغیرہ بھی خرید کر دی تھی جو بیرون ملک کے سفر کی وجہ سے والد صاحب کے مشورہ سے میں نے اپنی ساری لائبریری جامعہ محمدیہ اوکاڑا کے علاوہ اپنے قریبی ساتھیوں کو ھدیہ کر دی تھی۔ شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھویؒ علمی اعتبار سے بہت ھی بڑے عالم تھے۔ عصری حوالہ کے اعتبار سے شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھویؒ میٹرک پاس تھے۔ ۹۰ سال قبل میٹرک پاس ڈی سی لگا کرتے تھے؟ دینی اعتبار سے پورے علوم اسلامیہ کی تعلیم اپنے مرکز لکھو کے ضلع فیروزپور پنجاب ھندوستان میں اپنے ابا جی شیخ الحدیث مولانا محمد علی لکھوی ثم مدنیؒ کے ساتھ ساتھ اپنے دوسرے لکھوی بزرگوں سے حاصل کی۔ تفسیر القرآن کے لیے وقت کے بہت بڑے حنفی عالم دین مولانا احمد علی لاھوریؒ کے پاس تشریف لۓ گۓ اور تمام طلبہ میں سے فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ کے ھاتھ سے شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھویؒ نے سند فراغت حاصل کی تھی۔ مولانا ابراھیم میر سیالکوٹی اور مولانا محمد حنیف خان بھوجیانی سے بھی علوم اسلامیہ کی تعلیم حاصل فرمائ ۔
شیخ الاسلام کا خطاب لکھنے کی وجہ شیخ کے تمام طلبہ جانتے ھیں۔ شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھویؒ بحرالعلوم تھے صرف نحو منطق فارسی لغت العربیہ تفسیر القرآن کریم اور حدیث پر کمال دسترس کے علاوہ اپنے انداز کے بہت بڑے خطیب اور داعی اور قائد تھے۔ یقین مانیے بہت سارے طلباءکرام کو ڈر لگا رہتا تھا کہ حضرت کوئ صیغہ نا پوچھ لے کوئ صرف و نحو کا سوال ھی نا پوچھ لے کسی آیت کی ترکیب نحوی نا پوچھ لے کوئ اصول فقہ اور اصول محدثین کے بارے میں سوال نا کر لے بڑے بڑے اساتذہ کرام اور شیوخ الحدیث شیخ الاسلام کے علم کے معترف تھے۔ حضرت کی ساری زندگی کا معمول تھا فجر کی جماعت خود کرواتے اور بعد میں تفسیر القرآن بیان فرماتے اور طلباء سے علوم اسلامیہ کے متعلق مشکل مشکل مختلف سوال پوچھتے ۔ اور پھر چاچا جی منشاء اور پروفیسر مشتاق احمد کے ساتھ فیصل آباد روڈ بڑی نہر تک واکنگ فرماتے جو تقریبا تین میل کی مسافت بنتی ھے ؟ اوکاڑا کی تاریخ کا سب سے بڑا عید کا اجتماع شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھویؒ ھی گورنمنٹ ڈگری کالج کے وسیع العریض گراؤنڈ میں فرماتے رھے۔ شیخ الحدیث والتفسیر علامہ عبدالحلیمؒ جب کبھی کبھار جامعہ محمدیہ اوکاڑا سے بوجہ بیماری چھٹی فرماتے تو صحیح بخاری اور دوسری علوم اسلامیہ کی نصابی کتب شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھویؒ خود پڑھاتے تھے اور طلباء کے لیے بہت مشکل مرحلہ ھوتا حضرت کے سامنے عبارت پڑھتے ھوۓ ۔طبعیت میں جلال تھا اگلی گل دا تُہانوں پتا ھیں۔ س
سیاست کے اعتبار سے مولانا معین الدین لکھوی بہت ھی کامیاب زیرک سیاستدان تھے ۔ پاکستان کے ضلع قصور کے دو حلقے این اۓ 139 اور این اۓ 140 کے دو حلقوں سے شیخ الاسلام انتخابات میں حصہ لیتے رھے سب سے پہلے شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھویؒ کے بڑے بھائ ولی کامل بقیت السلف مولانا محی الدین لکھویؒ ایم ایل اے (ایم این اۓ) منتخب ھوۓ۔ پھر شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھویؒ ایک دفع جرنل ضیاءالحق مرحوم کی شوری کے ممبر منتخب ھوۓ اور تین دفع ایم این اۓ منتخب ھوۓ دو دفع اپنوں کی مہربانی سے شکست بھی ھوئ جس کے بعد شیخ الاسلام نے الیکشن میں حصہ نا لیا اور حلقہ اپنے جانشین محترم ڈاکٹر زعیم الدین عابد لکھوی حفظہ اللہ تعالی کے حوالے کر دیا۔
شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھویؒ کو تمام عالم اسلام کے حکمران قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور بھرپور طریقے سے حضرت کا استقبال کرتے جو حکمران حضرت کے پاس آتے حضرت بھی خندہ پیشانی سے ملتے ۔ امارت کے اعتبار سے شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھویؒ کامیاب امیر جماعت تھے۔ بطل حُریت سید محمد داؤد غزنویؒ اور مولانا اسمعیل سلفیؒ کے بعد مرکزی جمعیت اھلحدیث پاکستان کے تقریبا 20 سال تک بلا شرکت غیرے امیر رھے پھر جماعتی الیکشن میں بھی حضرت جیتے اور حلقہ 140سے بھی حضرت الیکشن جیتے ؟ لیکن ھونی کو کون ٹال سکتا تھا پہلی دفع جماعت دو حصوں میں تقسیم ھو گئ😢😪😭 جو حضرت کی آخری زندگی تک کئ گروپس میں تقسیم در تقسیم ھوتی گئ😢😪😭 بالآخرعلامہ پروفیسر سینیٹر ساجد میر حفظہ اللہ تعالی جامعہ محمدیہ اوکاڑا تشریف لاۓ اور اپنے قائد شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھویؒ کو بھرپور اصرارکی بنا پر مرکزی جمعیت اھلحدیث پاکستان کا سرپرست اعلی منتخب فرمایا شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھویؒ نے بھی مرکزی جمعیت اھلحدیث لکھوی گروپ کو مرکرزی جمعیت اھلحدیث پاکستان میں ضم کر دیا۔ جو حضرت کی وفات سے لیکر آج تک یہ سلسلہ جاری ھے الحمد للہ۔ کارنامے۔ شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھویؒ نے اپنے حلقے کی عوام کی تو خدمت بھرپور انداز سے کی ھی تھی لیکن ایک شیخ الاسلام کا عظیم کارنامہ تھا جس کی دنیا آج تک معترف ھے۔ حضرت مدارس عربیہ کے مستقبل کے لیے فکر مند رھتے اور مدارس عربیہ کے لیے کچھ کر گزرنے کی تمنا رکھتے ۔ بلآخر جرنل ضیاءالحق کو قائل کرنے میں کامیاب ھو گۓ اور مدارس عربیہ کا متفقہ بورڈ وفاق المدارس کو منظور کروایا اور پھر تمام مسالک کے پانچ وفاق وجود میں آۓ شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھویؒ نے وفاق المدارس کی شہادت العالمیہ فی العلوم العربیہ والاسلامیہ کی ڈگڑی کو ھائر ایجوکیشن کمیشن سے ایم اے عربی اور ایم اے اسلامیات کے مساوی منوانے میں کامیاب رھے؟ جس کے نتیجے میں پاکستان کے ہزاروں سکولوں اور کالجز میں وفاق المدارس کی ڈگڑی پر اساتذہ بھرتی ھوۓ۔ ایثار۔ ۱جب حضرت نے وفاق المدارس کو منظور کروایا تو وفاق المدارس السلفیہ کا صدر مقام(مرکزی آفس) جامعہ محمدیہ اوکاڑا میں بننا تھا ۔ مولانا معین الدین لکھویؒ نے ایثار کی عظیم مثال قائم کی اور اپنے ادارہ جامعہ محمدیہ اوکاڑا کی بجاۓ جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں صدر مقام (مرکزی آفس) کے لیۓ سائن فرماۓ ۔ اور دنیا کو بتا دیا کہ ایک امیر جماعت اور وفاق المدارس کے موجد اور ایک ایم این اۓ کے ھوتے ھوۓ بھی مرکزی بورڈ اپنے ادارہ کی بجاۓ جماعت کے دوسرے ادارہ میں بننے کو ترجیع دے کر عظیم مثال قائم کر گۓ۔ ۲ جامعہ سلفیہ اسلام آباد کی زمین حضرت نے خریدی اور اس ادارہ کو بنانے میں حضرت کا کلیدی کردار تھا اپنے نام لگوانے کی بجاۓ جامعہ سلفیہ اسلام آباد جماعت کے حوالے کیا سبحان اللہ العظیم۔ اعتدال ۔ شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھویؒ بہت ھی معتدل شخصیت کے مالک تھے حضرت نے خطبہ جمعہ کے لیے ڈاکٹر اسرار احمدؒ کو جامعہ محمدیہ اوکاڑا میں مدعو فرمایا تھا اور میں نے خود وہ خطبہ جمعہ حضرت کے ساتھ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا سماعت کیا تھا ۔ آج اگر ایسا ھوتا تو فتوے حرکت میں آجاتے؟ حضرت کے اعتدال کی وجہ سے اوکاڑا شہر کی کثیر تعداد میں دوسرے مسالک کے لوگ حضرت کے پیچھے نماز ادا فرماتے۔ اور ہزاروں لوگ شرک و بدعت سے تائب ھو کر توحید وسنت کو اپنانے والے بن گۓ۔ الحمد للہ رب العالمین اوکاڑا شہر کے ایک معروف ڈاکٹر صاحب جن کا نام ڈاکٹر ذاکر حُسین تھا سیاسی اعتبار سے جماعت اسلامی کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور مسلکا اھل تشیع کے ساتھ تعلق رکھتے تھے لیکن عصر کی نماز ھمیشہ جامعہ محمدیہ اوکاڑا میں شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھویؒ کے پیچھے ادا کرتے تھے۔ اس وقت اوکاڑا شہر امن کا گہوارہ تھا کوئ شیعہ سنی لڑائ نہیں تھی شیعہ حضرات بظاھر صحابہ کرامؓ کو گالیاں نہیں دیتے تھے جو کچھ تھا ان کے اندر ھی تھا بہت سارے اھل تشیع کے لوگ بچوں کے لیے قرآن کریم کی تعلیم کے لیے سنی قرآء کرام کی خدمات لیتے۔ 1980 کے بعد حالات خراب ھوۓ مختلف جماعتیں بنی کافر کافر کے نعرے لگے جو اندر تھا وہ باھر آگیا اور امن عامہ کے حالات یکسر بدل گۓ فرقہ واریت آپسی جھگڑے قتل و غارت عروج پر پہنچ گۓ😢😪😭 شیخ الاسلام مولانا معین الدین لکھویؒ کو جرنل ضیاءالحق نے مفکر اسلام کے خطاب کے ساتھ ساتھ تمغہ امتیاز سے بھی نوازا۔ شیخ الاسلام طلباء کرام کو عقیدہ توحید٫ اسوہ رسولﷺ پر چلنے کی وصیت فرماتے امھات المؤمنین صحابہ کرامؓ کے ساتھ ساتھ اھلبیتؑ سے محبت کا درس دیتے ۔ ائمہ اربعہ سمیت ائمہ محدثین کا احترام کرنے کا درس دیتے۔ شیخ الاسلام کے ہزاروں شاگرد ھیں لیکن جنہوں نے کمال شہرت پائ ان کے اسماۓ گرامی شیخ الحدیث والتفسیر علامہ عبداللہ امجد چھتویؒ شیخ الحدیث والتفسیر علامہ عبدالحلیمؒ شیخ الحدیث والتفسیر حافظ عبدالسلام بھٹوی صاحب شیخ الحدیث والتفسیر علامہ حافظ عبدالعزیز علوی صاحب شیخ الحدیث والتفسیر علامہ عبدالغفار اعوان ثم مدنی شیخ الحدیث والتفسیر ڈاکٹر عبدالکبیر محسن صاحب شیخ القراء قاری محمد یوسف لکھوی رحمہ اللہ تعالی علامہ سید ضیاءاللہ شاہ بخاری صاحب علامہ حافظ حسن محمود کمیرپوری صاحب فضیلت الشیخ مولانا منیر قمر صاحب پروفیسر ڈاکٹر حافظ عبدالوحید صاحب امریکہ ڈاکٹر زعیم الدین عابد لکھوی مھتمم جامعہ محمدیہ اوکاڑا پروفیسر ڈاکٹر محمد حمود لکھوی صاحب پروفیسر ڈاکٹر محمد حماد لکھوی صاحب پروفیسر ڈاکٹر محمد زید لکھوی صاحب مولانا منیر قاسم برطانیہ مولانا رفیق عابد مدنی برطانیہ مولانا عبدالکریم ثاقب برطانیہ قاری محمد خالد مجاھد صاحب قاری بنامین عابد صاحب وغیرھم بالآخر علم و عرفان کا سورج 29 جنوری 2012 کو غروب ھو گیا۔ وھی آبلے ھے وہی جلن کوئ سوز دل میں کمی نہیں جو لگا کے آگ چلے گۓ وہ لگی ھوئ ھے بجھی نہیں